99

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا خامہ اثر:عبدالقدیر خاموش

23مارچ ……سینہ فگار یادوں کا دن ،غم و اندوہ کے ازدحام،حزن وملال اور رنج ابتلا ء کی انتہا کا دن،قائدومہرباں استاذ ومربی کے شعوب وفراق کادن۔علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید تو مدینۃ النبی میں آسودہ خاک ہوئے،لیکن برادران یوسف کے مثل رفقاء نے اسی دن ان کی فکر،ان کی جدوجہد،ان کی سیادت،اس کی تربیت،ان کی تعلیم اورشخصیت کو بھی جہان نسیاں کے تاریک گورستان میں دفن کردیا ۔ ایک خطیب کی انہیں ضرورت تھی ، اس نام کو زندہ رکھا۔ویسے بھی نام اورشخصیت اتنی بڑی تھی کہ اسے منصہ شہود سے غائب کرنا کسی طور بھی ممکن نہ تھا ، البتہ خطابت کے وصف کی چادر تان کرانقلابی فکر کی کلفتوں سےرستگاری حاصل کرلی گئی ۔ دوسری جانب ہم جیسے ہیں ، جو عمر بھر اسی فکر کی جلا کی خاطر سر پٹختے اور بنجر زمینوں میں فکر کے چشمے تلاش کرتے رہے ، لیکن تھکے نہیں ،رکے نہیں ، کہہ سکتے ہیں کہ :
سینہ فگار ، چاک گریباں،کفن بردوش
آئے ہیں تیری بزم میں اس بانکپن سے ہم
جذبات واحساسات کاسیل رواں ہےجوقوت اظہارچاہتا ہے،تین روز قبل دل کےکچھ پھپھولے پھوڑے تھے ، مقصد صرف رسم دنیا کے تحت یاد ماضی کے کرب سے گزرنا ہر گز نہ تھا بلکہ برس یا برس سے سینے میں سلگتی احساس زیاں کی آگ کو اہلحدیث نوجوانوں کے اذہان وقلوب تک پہنچانا تھا ، کہ شائد کسی کے دل میں بات اتر جائے، شائد کوئی شوریدہ سرعلامہ احسانؒ کے قدموں کے نشاں پر چلنے کا فیصلہ کرلے،شائد کسی زرخیز دماغ میں فکر احسان الٰہی ظہیرؒ کا شگوفہ پھوٹ پڑے۔ہمارے سامنے نہ سہی کچھ وقت بعد ہی سہی عالم اسلام خصوصاً مسلک اہل حدیث کے لئے فکری سائباں بن جائے، علامہ احسانؒ کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو رہے کہ ’’ ہم اس ملک میں ایسا انقلاب لانا چاہتے ہیں کہ یہاں قرآن وسنت کے سوا کوئی قانون نہ بن سکے ۔‘‘
میرے سینے میں نہیں توتیرے سینے میں سہی ہو کہیں بھی آگ لیکن آگ جلنی چاہئے
رونا دھونا، شہیدوں کا ماتم کرنا ہمارا عقیدہ ہے نہ ہمارے مزاج کا حصہ ، ہم شہیدوں کو اللہ کے سپرد کرکے ان کی شمیشر وسناں کو وراثت ماننے والوں میں سے ہیں ، ان کی فکر سے روشنی پانے اور ادھورے کام کو مکمل کرنے کی خاطر جدوجہد کو وہیں سے شروع کرنے کے مکلف ہیں،جہاں انہوں نے چھوڑاتھا،مگردل کڑھتاہے،ضمیر کچوکے دیتا ہے،آنکھیں شرم سے جھکی جاتی ہیں، جب دیکھتے ہیں کہ ہمارے انتہائی با صلاحیت، جری اور جرات مند اہل حدیث جوانوں کو کبھی کوئی اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے تو کبھی انہیں کسی دوسرے گروہ کے مفادات کی بھٹی میں جھونک دیا جاتا ہے ۔یوسف بے کاررواں بنے پھرتے ، دوسروں کے مفادات کی جنگ لڑتے اور سیاسی بردہ فروشوں کے لئے نعرہ زن ہوتے یہ نوجوان میرے مسلک کی وہ قوت ہے،جسے ضائع کیا جارہا ہے ، گم کردہ راہ کیا جارہا ہے ۔ یہ وہ قوت ہے جسے بروئے کار لاکر علامہ شہیدؒ ؒ انقلاب کا خواب دیکھا کرتے تھے،انہیں کو سنوارنے،منظم کرنےاورانقلاب کے ہرول میں بدلنے کی خاطرانہوں نے اہل حدیث یوتھ فورس کے نام سے تنظیم قائم کی ، جس پر ان کے ساتھ ہی فاتحہ پڑ ھ لینا ضروری سمجھا گیا ۔
کچھ اصولوں کا نشہ تھا کچھ مقدس خواب ہر زمانے میں شہادت کے یہی اسباب رہے سوال یہ ہے کہ کیا فکر ی شکستگی کی اس واردات کو قبول کرلیا جائے اورحالات کی ستم ظریفی کو ذمہ دار قرار دے کر چند آنسو بہائیں اور بری الذمہ ہوجائیں ،؟ لیکن یہ مردان کار کا شیوہ نہیں ۔اگر یہی مقصد حیات ہے تو پھر کسی کم ہمت کو زیبا نہیں کہ وہ علامہؒ جیسے مرد جری کا نام لے کر اپنی خطابت بیچے ، یا لیڈری چمکائے۔نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ تاریخ کی شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں تو قائدین سے سوال کریں ،پوچھیں کہ فکر علامہ کیا تھی ، اسے تج کر اقتدارکی سیاست کیوں اختیار کی گئی ، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ سوال اٹھائیں ، کریدیں اور پوچھیں کہ :
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے
اب ایک سوال محبان علامہ سے بھی ہے ، گر برا مانیں تو ۔۔ کیا یہ کافی ہے کہ سال بعد علامہ کی جرات وبہادری کاتذکرہ کرلیاجائے،ان کی فکر کو ارزاں کردینے والوں کا گلہ کرلیا جائے اوربس؛کیا کسی کی ناراضی کے ڈر سے چپ سادھ لی جائے ؟حالات کے نامناسب ہونے کا رونا رولیا جائے اور گوشہ عافیت میں سر چھپا کر بیٹھ جایا جائے ؟ اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہمیں علامہؒ کا نام لینے کا بھی حق نہیں پہنچتا ، ہمیں ان سے کسی نظریاتی تعلق کے دعوے کا بھی کوئی استحقاق نہیں ہے ۔ کیا ہم نہیں جانتے کہ علامہ شہید نے پوری زندگی کس طرح مجاہدانہ گزاری ،ہمیشہ مسلک کی جنگ لڑی ، اسلام اور قرآن وسنت کے لئے بر سر پیکار رہے ، کسی ایک لمحہ کے لئے بھی رخصت یا مصلحت اختیار نہیں کی بلکہ ہر آن انہوں نے عزیمت کا راستہ ہی اختیار کیا۔ کیا ان کے خلاف مقدمات درج نہیں کئے گئے ؟کیاانہیں مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا؟ کیا انہوں نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت نہیں کیں؟کیا ان پر پابندیاں نہیں لگیں؟ کیاانہوں نے بے جاالزامات کامقابلہ نہیں کیا ؟
کیا بعض اپنوں نے ان سے بے اعتنائی بلکہ لا تعلقی اختیار نہیں کی؟کیا ان کی سیاست کے آغاز پر اس وقت کی جماعت نے ہر اس اجماع سے گریز نہیں کیا جہاں وہ شریک ہوتے ؟، کیا ان کی گرفتاری پر اپنوں نے لا تعلقی کا اعلان نہیں کیا؟ کیا ان کا خاندان نہیں تھا؟ کیا ان کے بچے نہیں تھے؟کس قدر شرم کی بات ہے کہ نام ہم اس کا لیتے ہیں جس نے حق کی خاطر شھادت کی موت قبول کی ، جاں قربان کردی ،جس کے بچے باپ کی شفقت کے بغیر پروان چڑھے ، جن کی اہلیہ سے شوہر کے بغیر تنہا اولاد کی پرورش کا کٹھن مرحلہ سر کیا۔ کیا سمجھتے ہیں آپ کہ اتنی بڑی قربانی کسی ذاتی مقصد کے تحت تھی،یا کسی وقتی اشتعال کا نتیجہ ؟ نہیں جناب نہیں۔۔۔ علامہ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بتاتا ہے کہ وہ شعوری مسلمان تھے ،اور پیدائشی قائد ،وہ اپنے ایک ایک قدم کے نتائج اور اثرات سے مکمل آگاہ دیدہ وبینا شخصیت تھے ، ایک ایسی شخصیت کہ جن کے تبحر علمی اور تدبر فکری کے سبب سعودی و عراقی قیادتیں راہنمائی لیتی تھیں۔وہ چاہتے تو حکومتوں کا با وقار حصہ ہوتے ، بلکہ وہ توسعودیوں کی پیشکش ٹھکرا کر جدوجہد کے میدان میں اترے اور تاحیات چومکھی لڑتے رہے ، اتحاد امت کی داعی بھی بنے مگر اظہار مسلک حق سے اک لمحے کو بھی گریزاں نہ ہوئے۔ ایسے صاحب عزیمت کے طرفدار ہیں اور پھر مصلحتوں کے کنج عافیت میں پناہ چاہتے ہیں ؟
پھول بھی ہاتھ لگیں اور کانٹے بھی نہ چبھیں آپ بھی آئے ہیں کیا خوب تمنا لے کر
وقت کا مناد صدا دے رہا ہے ، حالات کے افق پر فساد کی تنبیہ واضح ہے ،تشکیک پھیل رہی ہے ،الحاد منہ زو ر ہوتا جا رہا ہے ،سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کے اذہان وقلوب کو مسموم کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی ، توہین صحابہ کا فتنہ تو اب ہماری اپنی صفوں میں سر اٹھانے لگا ہے ، یہ حالات متقاضی ہیں کہ سیاسی میدان میں مورچہ لگایا جائے ، علمی میدان سے مستحکم اور مدلل راہنمائی فراہم کی جائے ،عالمی سطح پر تیز اور منظم لابنگ کی جائے ، ریسرچ اور اجتہاد کے ادارے بنائے جائیں ، میڈیا میں رد کیا جائے اور دفاع صحابہ کا میدان خالی نہ چھوڑا جائے۔ یہ سب کچھ ، بلکہ اس کی حکمت عملی اور روڈ میپ تک فکر علامہ شھید کے سوا کہیں سےنہیں مل سکتا ۔ اگر ہم نے ان تمام میدان ہائے کار کو خالی نہ چھوڑا ہوتا ، ہزار دماغ کے اس عبقری کے راستے کو ترک نہ کیا ہوتا تو یہ مسائل جنم ہی نہ لیتے ۔ سو اے محبان علامہ ، نوجوانان مسلک اہل حدیث: علامہ کے نام کامرثیہ پڑھنا چھوڑیں،چھوٹی عقیدتوں کے نعرے لگانے کو جانے دیں اگر کچھ کرنا ہے تو علامہؒؒ کی مسند علم کو سنبھالیں ، شہید قائد ؒؒ کی جدوجہد ، فکر ، حکمت ، تدبر اور طریقہ کار کو اپنائیں ، یقین مانیں علامہ احسان الٰہی ظہیرؒؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں،باقی سب کہانیاں ہیں،داستانیں ہیں اورکچھ بھی نہیں ۔

وہ ملا تو فاصلے کٹتے ہی چلے گئے بچھڑا تو راستے میرے دشوار کر گیا
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں