الماس شکستہ” دنیائے ادب میں خوبصور اضافہ:شیخ عبد الرشید

جامعہ گجرات کے دو روزہ بک فیئر پر کتابوں کے سٹالوں کو دیکھتا ایک سٹال پر پہنچا اور سٹال پر پڑھی کتب پر نظر دوڑا رہا تھا کہ اچانک ایک محترمہ نے کمال شائستگی اور پرجوش انداز میں کہا سر! یہ میرا ناول ہے ۔۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک کم عمر مگر پر اعتماد لڑکی نے اپنا ناول دکھاتے ہوئے کہا میں یہ آپ کو پیش کرنا چاہتی ہوں، میں انگریزی ادب کی طالبہ اور وزٹنگ لیکچرر ہوں۔ میں نے بڑے اشتیاق سے ناول نگار حراء بنت کریم سے اس کا ناول ” الماس شکستہ” بصد شکریہ وصول پایا، ” 192 صفحات پر مشتمل اس ناول کو علم و عرفان پبلشرز لاہور نے شائع کیا ہے اور اس کی قیمت 700روپے ہے۔۔۔۔
” یہ میرا پہلا ناول ہے ، میں نے انگریزی کی بجائے اردو میں لکھنا پسند کیا ہے۔ اسے پڑھنا ضرور اور رائے بھی دینی ہے، ہاشم ندیم ، عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے ناول مجھے بہت پسند ہیں۔۔۔ ” اس کے لہجے کا اعتماد اور اپنی پہلی کتاب کا شوق سب معنویت سے بھرپور اور ایک لکھاری قلبی جذبات کے آئینہ دار تھے۔ میں نے الماس شکستہ وصول پانے کے بعد شکریہ ادا کیا اور سوچا کہ میری کتاب ” گجرات کا نسائی ادب” کے لیے ایک اور نام کا اضافہ ہو گیا۔
بلاتامل کہا جاسکتا ہے کہ اکیسویں صدی کے ابتدائی دو اڑھائی عشروں میں فکشن کی دنیا میں جس تیزی سے تبدیلی آئی ہے اور جس کثرت سے فکشن لکھا گیا ہے شاید انسانی تاریخ کی کسی نسل نے فکشن کی ایسی باڑھ نہیں دیکھی ہوگی ۔ پروفیسر جان مولین (professor jhon mullan)سے جب ’گارجین ‘اخبار نے برطانیہ میں فکشن کی صورت حال پر تبصرہ کرنے کو کہا تو ان کا جواب تھا:“one of the most extraordinary publishing phenomena of recent decades.” واقعہ یہ ہے کہ اگر اردو ناول کی کثرت اشاعت کوبھی اکیسویں صدی کا غیر معمولی واقعہ قرار دیا جائے تو یقینا غلط نہ ہوگا ۔
عہدِ حاضر میں نہ صرف اعلیٰ ادب تخلیق ہورہاہے، بلکہ نت نئے تجربات بھی کیے جا رہے ہیں،جس کی بنیادپر ناول نگاری کے نت نئے زاویے دریافت ہورہے ہیں،جن کے ذریعے سے کسی بھی خیال کو وسیع بیانیے پر پھیلایاجاسکتاہے۔ناول کے ابتدائی زمانے سے لے کر موجودہ دور تک ناول کی صنف نے اپنی کشش نہیں کھوئی،تمام ترتجربات کے باوجود قاری کے لیے آج بھی فکشن میں سب سے اہم صنف ناول ہی ہے،جس میں وہ پناہ لیتاہے۔ ناول کی صنف قاری کی تخلیقی تسکین کاباعث بنتی ہے،۔ گبرئیل گارسیا مارکیز نے ناول کو خفیہ کوڈ میں بیان کی گئی حقیقتوں کانام دیا تھا ، ورجینیا وولف کا کہنا ہے کہ ناول میں دنیا کا سب کچھ موجود ہوتا ہے اور ڈی۔ایچ لارنس نے اپنے کسی مضمون میں (غالباً1920میں)لکھا تھا کہ ’ناول دوربین کی ایجاد سے زیادہ بڑی ایجاد ہے‘۔اور لارنس نے یہ غلط نہیں کہا تھا ۔کہ ناول نگار ناولوں کے ذریعے محض اپنی دنیا اور آس پاس کی ہی نہیں، دوسری دنیاؤں میں بھی ہورہی معمولی سی ہلچل،ہلکے سے ارتعاش، بے چینی، گھٹن ،نامعلوم آہٹ اور آنے والی تبدیلی کے آثار تک کو دیکھتا اور اپنے قارئین کو سلیقے سے دکھاتا ہے۔اچھا ناول نگار صرف کہانی نہیں گھڑتا۔ وہ ذات کے دروں میں جھانکتا ہے، نفسیات کی صد رنگ پہیلیوں کو منکشف کرتا ہے، مختلف ادوار اور حالات کی پرتیں کھولتا ہے۔ آپ بھی ” الماس شکستہ ” کی کاپی حاصل کریں اسے پڑھیں اور دیکھیں کہ ناول کی عظمت رفتہ کے کی بجائے جدید اور مقبول ناول نگاروں کو پڑھ کر لکھنے کی طرف مائل ہونے والے نوجوان لکھاری اردو ناول میں کیا نئے تجربات کر رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں