جاگتے رہو۔۔۔ چھلنی چھلنی دل !!! عظمیٰ گل دختر جنرل حمید گل

جیسے ابتر حالات آج پاکستان میں ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں! کسی کو سیاست دانوں یا حکمرانوں کے وعدوں پر بھروسہ نہیں۔ 76 سالوں سے آمریت ہو یا جمہوریت، عوام کو جھوٹے وعدے، لاروں پر ہی رکھا گیا ہے۔ اب عوامی جذبات میں نا امیدی سی عود کر آئی ہے۔اس پر نسلوں سے روا نظامِ جمہوریت کے سوا کوئی دوسرا راستہ بھی سجھائی نہیں دیتا۔ جمہوری نظام کی ناکامی پر تنقید کرنے والوں سے پہلا سوال ہوتا ہے کہ اگر یہ نظام نہیں تو پھر متبادل کیا؟ اس کے خد و خال کیا ہونگے؟ حکمرانی کس کے پاس ہوگی؟ ٹیکس ، بلدیاتی ، سیاسی ، عدالتی نظام و محکمہ جات کیسے کام کریں گے؟ وہ ان کےفوری جوابات مانگتے ہیں جیسے متبادل نظام کے متلاشی ہوں اورمتبادل نظام کا پکا پکایا فارمولا بغیرکسی کاوش کے حاضر ہو۔ وہ پرانے نظام کی ناکامی اور کسی نئے نظام سے مایوسی پر حق بجانب بھی ہیں اور اسی اتاہ مایوسی میں انہیں کہیں سے روشنی کی کرن نظر نہیں آتی جبکہ وہ سیاست دانوں کے درمیان گھڑیال بنے ایک جانب سے دوسری جانب جھولتے رہتے ہیں۔ ہر نیا آنے والا چہرہ کچھ دیر کو جمہوریت کے ٹمٹماتے دئے کو دوبارہ روشن کر تا ہے لیکن جلدہی یہ روشنی ماند پڑ جاتی ہے۔ پھر بے یقینی اور مایوسی کے اندھیرے دوبارہ بڑھنے لگتے ہیں۔
جب پاکستان وجود میں آیا تو جو وعدہ ہم نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے کیا تھا اس پر ایک روز بھی عمل پیرا نہ ہوئے۔ قائدِ اعظمؒ کے بعد لا الہ الا اللہ کے نام پر ملک لینے والوں کو اس کلمے کا صحیح طرح ادراک تھا نا وہ جانتے تھے کہ اسلامی تعلیمات پر کیسے عمل کرنا ہے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حاکمیت کے کیا معنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کل جہان کا مالک ہے، زمین و آسمان میں سب کچھ اللہ ہی کا ہے ۔ زمین پر حکمران اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا نائب اور اس کے احکام کے تابع ہے۔ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس پر قرآن میں بار بار زور دے کر ہر قسم کے شک کی گنجائش ختم کر دی گئی ہے۔ایک اسلامی ریاست میں تمام قوائد وضوابط اللہ سبحانہ و تعالیٰ یعنی حاکمِ اعلیٰ کے قوانین و احکامات کے تابع ہوں گے جبکہ مغربی جمہوریت میں اس کے برعکس قطعی حکمرانی اور قوانین بنانے کا اختیار عوام و عوامی نمائندوں کا ہے۔ اسلام میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حکمرانی میں کسی کو شریک کرنا کفر ہے تو عوام کا کیسے قطعی حق حکمرانی ہو سکتا ہے؟۔ مغربی جمہوریت کی بنیاد عیسائی، یہودی اور ہندو مذہبی پیشواؤں کی صدیوں پر محیط ظلم ونا انصافی پر مبنی بلاواسطہ اور بالواسطہ حکمرانی سے شدید نفرت اور عناد ہے کیونکہ عیسائیت، یہودیت اور ہندو ازم کی مذہبی کتب میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حکمرانی پر عمل درامد کا کوئی باقاعدہ طریقۂ کار قرآن مجیدکی طرح واضح نہیں ۔ قرآن میں اللہ سبحانہ و تعالی ٰ مذہبی پیشواؤں کے ذریعے حکمرانی کو مسترد کرتا ہے۔”انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا حالانکہ اُن کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ خدائے واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔سورۃ التوبہ 9:31۔ اسلامی نظام میں حکمران اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دئیے گئے کسی قانون میں تبدیلی ترمیم یا تحریف نہیں کر سکتا جو مغربی جمہوریت کے مترادف ہے۔ مغربی جمہوریت میں مذہب ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہےجبکہ مذہب اور سیاست کا آپس میں کوئی تعلق نہیں لیکن اسلام میں عبادت، عقائد اور تعلیمات کے علاوہ سیاسی، معاشی اور حکومتی معاملات کے حوالے سے بھی مکمل ضابطہ ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کرنے کا مقصد واضح طور پر فرمایا ہے ۔”اور میں نے انسان اور جنات کو کسی اور مقصد سے نہیں بلکہ اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں”۔ الذاریات 51:56 ۔یعنی عبادت کے معنی ہر معاملے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مکمل اطاعت ہے۔اس کے دو پہلو ہیں ایک نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ اور دوسرا معاملاتِ زندگی کو تمام سیاسی، معاشی، معاشرتی، سماجی اور دیگر پہلوؤں کو بمطابق احکامِ الہیٰ ڈھالنا۔ یہی وہ عبادت کا مجموعہ ہے جس کے لیے انسان کو تخلیق کیا گیا ۔ انہی احکامات پر عمل پیرا ہو کر ایک اسلامی فلاحی حکومت کا قیام ہو سکتا ہے۔ اسلام میں سیاست اور مذہب علیحدہ نہیں بلکہ یہ یقینی بناتا ہےکہ عوام کو اختیارات، ذمہ داریاں اور عزت سے جینے کے حقوق اسلامی شعار کے مطابق حاصل ہوں اور ریاست کی ذمہ داریاں بھی اسی شریعت کے تابع ہوں۔ دراصل جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے انسان کو عبادت کے لئے تخلیق کیا تو اولین مقصد اﷲ کی پرستش ہے لیکن ساتھ ہی انسانی زندگی کو ایسے ضابطۂ حیاتکے مطابق گزارنا ہے کہ اس کا ہر پہلو عبادت کا حصّہ بن جائے اور شریعت کے مطابق عوام کی زندگیاں اپنے مقصدِ حیات کو حاصل کرنے میں سہل ہو جائیں۔ مغربی جمہوریت میں عوامی خواہش کو قطعیت حاصل ہے۔ جو حالات، واقعات اور وقت کے ساتھ تبدیل ہو سکتی ہے جبکہ اسلام میں حکومت کا کام عوام کی تربیت کرنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی نیکی کی ترغیب اور برائی سے روکنا بھی شامل ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نیکی بدی، برائی اچھائی کے متعلق سب کچھ قرآن میں واضح کر دیا ہے۔” وہ لوگ جن کو اگر ہم زمین کی حکومت عطا کریں تو وہ نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فرض انجام دیں اور سب کاموں کا انجام اللہ تعالی ہی کے ہاتھ میں ہے” ۔ الحج22:41 جو قطعی ہے اور اس میں رد وبدل کی گنجائش نہیں۔
جمہوریت کے متبادل کیا نظامِ حکومت ہو؟ اسلام میں حکومت سازی کے لیے کوئی طریقۂ کار متعین نہیں،اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو وہ اس کا بھی حکم دے دیتا لہٰذا اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہر دور میں عوام اور معاشرے کی ترجیحات کے مطابق اس کے قواعد و ضوابط متعین کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ قرآن کے تابع ہوں۔ یہ کام اہلِ علم کی بصیرت، فہم و فراست اور عقل و دانش پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ جمہوری نظام کی حالیہ شکل دو سو سال سے پرانی نہیں،جو ظاہر ہے اس وقت کے مغربی اہلِ علم نے حالات و واقعات کے پیشِ نظر غور فکر و تدبر سے تخلیق کیا۔ ایسے ہی دورِ حاضر کے اسلامی اہلِ علم ونظر کو بھی متبادل اسلامی جمہوری نظام تخلیق کرنے کی ضرورت ہے جو عوامی ضروریات اور احساسات کو مدِنظر رکھتے ہوئے شریعت کے تابع ہو۔بجائے اس کے کہ مغرب سے درامد شدہ نظام جو ہماری وجۂ تخلیق کی بنیاداور اہم ترین ضرورت یعنی عبادت کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ پاکستان میں 73 کے آئین کی شق 2 اے ایک ایسی طاقت ہے جس سے ہم دستور کو ڈھال کر عملاً ایک اسلامی حکومت کا قیام کر سکتے ہیں ۔دنیا کے سارے نظام دھڑن تختہ ہو چکے، سود پر قائم معیشتیں ناکامی کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں۔ سارے نظام اپنی تمام تر کمزوریوں کے باعث بری طرح پٹ چکے، کوئی بھی چند ارب ڈالر سے کسی ملک کے معاشی نظام کو تہس نہس کر سکتا ہے۔ اس سودی معاشی نظام کے ہاتھوں حکومتیں بین الاقوامی اداروں کے پاس یرغمال ہیں، مرضی سے مسلمان فلسطین کی مدد کر سکتے ہیں نہ لڑ سکتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اس غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے اپنے نظامِ حکومت کو اسلام کے مطابق ڈھالیں۔ مغربی جمہوریت نے مغرب کا بیڑا غرق کر دیا ہے ان کے معاشرے اپنی شناخت کھوتے جا رہے ہیں کوئی مرد خود کو عورت تو کوئی عورت خود کو مرد کہلاتی ہے۔ کہیں منشیات کے استعمال پر سزائیں تو کہیں پرمٹ ملتے ہیں، کہیں خودکشی جرم ہے تو کہیں شخصی آزادی کا حصہ۔ ہم جنس پرستی، مرد کی مرد یا عورت کی عورت سے شادی جائز کہیں جرم! کیا یہی راستہ ہم اپنے لیے چننا چاہتے ہیں یا اسلام کا جو ایک آفاقی مذہب ، مکمل ضابطۂ حیات اور ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔
بشکریہ جنگ

اپنا تبصرہ بھیجیں