سہولت………..یا انسانی تذلیل

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔ابو حذیفہ
میں کوٹلہ ارب علی خان سے گجرات جانے کیلیے ٹویاٹا ہائی ایس میں سوار ہوا تو کچھ چیزیں میرے ذہن میں گھومنا شروع ہو گئیں ایک وقت تھا کہ لوگوں کو کہیں آنے جانے کیلیے پیدل سفر کرنا پڑتا تھا دور دراز کے علاقوں میں جانے کیلیے دنوں اور مہینوں کے صفر کے بعد منزل مقصود پہ پہنچنا ممکن ہوتا تھا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گدھا گاڑیاں آئیں سائیکل آئے موٹر سائیکل آئے پھر بسیں، کاریں،ٹرینیں ہوائی جہاز آگئے سہولیات بڑھتی گئیں دوریاں نزدیک آتی گئیں لیکن ان ساری سہولیات کے باوجود کچھ چیزیں گم ہوتی گئیں جو کے شاید اب ملنا ممکن نہیں لیکن کیا ہم بطور انسان اتنا گر گئے ہیں کہ ہماری لوکل ٹرانسپورٹ کی حالت ذار اتنی گر گئی ہے کہ اس میں ماوں بہنوں کی عزتیں تک محفوظ نہیں ویسے تو ہماری ساری لوکل ٹرانسپورٹ کی یہی حالت ہے لیکن ٹویوٹا ہائی ایس میں انسانیت سوز تضحیک شاید ہی کہیں دیکھنے کو ملے کنڈیکٹر حضرات کو اس چیز سے کوئی سروکار نہیں کہ کوئی بوڑھی عورت یا بوڑھا مرد کسی تکلیف میں بیٹھا ہے کوئی جوان عورت مردوں کے درمیان بیٹھی ہے اس کے پردے کا کوئی خیال نہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں رولز تو بہت ہوں گے لیکن یہاں کوئی بھی رول کوئی بھی حکم جوتی کی نوک پہ رکھنا بہترین مشغلہ ہے لوکل ٹرانسپورٹ کو کوئی چیک کرنے والا نہیں ہے کوئی ان کو انسانیت کا سبق سکھانے والا نہیں ہے کوئی ادارہ ان کو پوچھنے والا نہیں ہے کوئی عوامی نمائندہ ان کو سمجھانے والا نہیں ہے کوئی اڈہ منیجر ان کو بتانے والا نہیں ہے یہ چیز بطور اشرف المخلوقات ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ یوں سر بازار انسانیت کے پرخچے اڑائے جا رہے ہیں لیکن تمام ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں