ان کی قناعت کا یہ عالم تھا کہ قیام پاکستان کے بعد متروکہ وقف املاک بورڈ کی جانب سے اپنے کلیم کے عوض کچہری روڈ گجرات میں ملنے والی عمارت میں سے صرف آدھی بلڈنگ یہ کہتے ہوئے رکھی کہ ”میرے استعمال کے لیے آدھی ہی کافی ہے۔“ باقی آدھی عمارت حکومت کو واپس کر دی۔
نواب آف کالا باغ کی جانب سے ایک کنال کا ملنے والا سرکاری پلاٹ یہ کہہ کر حکومت کو واپس کر دیا کہ ”میرے پاس پہلے ہی رہائش کے لیے اپنا ایک مکان ہے۔ مجھے اس پلاٹ کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے یہ کسی اور ضرورت مند کو دے دیا جائے۔ میں اپنی اولاد کو جائیداد کے لیے لڑانا نہیں چاہتا۔“
گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خاں (نواب آف کالا باغ) کی درخواست پر انہوں نے چوہدری ظہور الٰہی کی ان سے (نواب آف کالا باغ) سے صلح کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔
صدر ایوب خاں کے دور میں وزیر تعلیم کی سربراہی میں تعلیمی پالیسی پر ہونے والے ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں یہ کہتے ہوئے احتجاجاً اٹھ آئے کہ ”اگر ہمیں اسلامی ریاست میں بھونکنے کی بھی اجازت نہیں ہے تو پھر اس ملک کو حاصل کرنے کا کیا فائدہ ہے۔“
گورنر پنجاب نواب صادق حسین قریشی کے اے ڈی سی گورنر کی ان سے بات کروانے کے لیے ان کے سو کر اٹھنے کا انتظار کرتے رہے۔
ان خوبیوں کی حامل شخصیت گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ ہولڈر اور گجرات کے حکیم سید ارشاد (1908۔ 1987) تھے۔ حکیم سید ارشاد مرحوم کی اصل وجہ شہرت تو ان کی انگریزی دانی اور ملکی مسائل پر ”ایڈیٹرز کے نام“ انگریزی زبان میں خطوط لکھنا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ ملک کے پڑھے لکھے حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ حکیم صاحب کی اسی خصوصیت کی بنا پر انہیں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے دنیا بھر میں ایڈیٹر کے نام سب سے زیادہ خطوط لکھنے اور چھپنے والی شخصیت قرار دیتے ہوئے ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے 2001 ء کے ایڈیشن میں شامل کیا۔
یہ الگ بات ہے کہ حکیم سید ارشاد کو یہ اعزاز ان کی وفات ( 1987 ) کے کئی سال بعد ان کے صاحبزادے سید مسعود ارشاد کی سال ہا سال کی کاوشوں کے نتیجے میں 2001 ء میں ملا۔
ماہر تعلیم حکیم سید ارشاد نے 1947 ء سے 1987 ء کے دوران سماجی اور قومی مسائل پر سینکڑوں خطوط قومی اخبارات کے ایڈیٹرز کے نام تحریر کیے۔ جن میں سے 602 خطوط پاکستان ٹائمز اور دیگر اخبارات میں شائع ہوئے۔ گنیز بک آف ریکارڈز نے اپنے 2001 ء کے ایڈیشن میں انہیں دنیا میں سب سے زیادہ ایڈیٹر کے نام (Letters to editor) خطوط لکھنے والی شخصیت قرار دیا۔
1963 ء ایسا سال تھا جب ان کے سب سے زیادہ 42 خطوط شائع ہوئے۔ اسی بنا پر وہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے حقدار ٹھہرے۔ حکیم سید محمد ارشاد کے یہ تمام خطوط ان کی وفات کے بعد ان کے صاحبزادے سید مسعود ارشاد نے تین جلدوں کی صورت کتابی شکل میں شائع کروائے ہیں۔
حکیم سید ارشاد 8 فروری 1908 ء کو مالیر کوٹلہ، پنجاب (متحدہ ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔ حصول تعلیم کے بعد انہوں نے محکمہ تعلیم میں درس و تدریس کے پیشے کو اپنایا۔ بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے تعلیم کو آسان بنانے کے لیے نصف صدی سے زائد عرصہ اپنے آپ کو تعلیم اور پریس کے ساتھ وابستہ کیے رکھا۔
پریس میں لکھنے کا آغاز انہوں نے بجنور (یو پی) سے شائع ہونے والے بچوں کے رسالے ”غنچہ“ سے کیا۔ بطور لکھاری وہ ڈان دہلی، سول اینڈ ملٹری گزٹ کراچی، زمیندار، کوہستان اور احسان لاہور سینٹی نل (پولیس میگزین) اور ڈیلی پاکستان ٹائمز میں لکھتے رہے۔
پاکستان ٹائمز کے لیٹرز کالم میں وہ سب سے پرانے اور دیر تک لکھنے والوں میں شامل لکھاری رہے۔ وہ ایک سرگرم مسلم لیگی تھے اور تحریک پاکستان کی کوششوں میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ علم و ادب پر عبور کے علاوہ انہیں یونانی طب پر بھی کمال حاصل تھا۔ وہ معروف حکیم اجمل خان دہلوی کے شاگرد بھی رہے۔
حکیم سید ارشاد کا شمار ان لوگوں میں تھا جن کو اپنی دنیا آپ حاصل کرنا ہوتی ہے۔ حکیم صاحب نے بیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں اپنی علمی زندگی کا آغاز کچھ اس طرح کیا کہ جب وہ سکول جاتے تو واپسی پر ان پڑھ کسانوں کو پڑھانے بیٹھ جاتے تھے۔ زندگی بھر ہمت، حوصلہ، ولولہ اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہی ان کا سامان سفر رہا۔
حکیم صاحب کے نزدیک مسلمانوں کی پسماندگی کا حل صرف اور صرف تعلیم کے ذریعے سے ہی ممکن تھا۔ بچوں کو تعلیم دینے کے علاوہ انہوں نے بالغوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے ملیر کوٹلہ میں ”ڈیوٹی اینڈ سروس“ کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت اس ادارے میں بالغ طالب علموں کی تعداد ساڑھے چار سو تھی۔ صرف پچیس سال کی عمر میں حکیم سید ارشاد تعلیم بالغان کے موضوع پر لکھی گئی تین کتابوں کے مصنف بن چکے تھے۔ یہ کتابیں حکومت وقت نے تعلیمی اداروں کے لیے منظور کیں۔ وہ اپنے کالج کے پرنسپل ڈبلیو۔ آر۔ سی۔ ایڈ کاک (W۔ R۔ C۔ Adcoc k) ایم۔ اے، بار ایٹ لاء سے بہت متاثر تھے۔ متحدہ ہندوستان میں حکیم صاحب نے پندرہ سال مختلف تعلیمی اداروں میں خدمات سر انجام دیں اور بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائر ہوئے۔
جذبہ جب شدید ہوتا ہے تو وہ جنون بن جاتا ہے۔ حکیم سید ارشاد جوش و جنوں کے سفر پر نکلے۔ تیز رفتار چلے۔ منزلوں پر منزلیں طے کیں۔ معرکوں پہ معرکے سر کیے۔ وہ معروف ہونا شروع ہو گئے۔ حلقہ احباب بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ مسائل بھی آئے تاہم جوانمردی سے ان سب کا سامنا کیا۔ اور وہ وقت بہت جلد آ گیا جب اخبارات میں چھپنے والی ان کی تحریریں سند کا درجہ اختیار کر گئیں۔
حکیم سید ارشاد کی 17 اکتوبر 1987 کو وفات کے بعد ان کے نام کو زندہ رکھنے اور انہیں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ تک پہنچانے کا سہرا ان کے بڑے صاحبزادے سید مسعود ارشاد کے سر جاتا ہے۔ جنھوں نے اپنے والد کی وفات کے بعد ان کی اخبارات میں شائع ہونے والی تحریروں اور خطوط کو مختلف لائبریریوں سے اکٹھا کر کے کتابی شکل میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا۔
سید مسعود نے اپنے والد حکیم سید ارشاد کے نام اور کام کو زندہ رکھنے کے لیے اپنا بزنس، اپنی فیکٹری اور یہاں تک کہ اپنی فیملی کو بھی لاہور چھوڑ آئے۔ جب اپنے والد کی 1987 میں وفات کے بعد انہوں نے اپنی والدہ کی بھرپور خدمت کے ساتھ ساتھ انہوں نے 1992 میں اپنے والد کی بنائی گئی انگلش اکیڈمی کو دوبارہ شروع کیا۔ اپنے والد کے مختلف اخبارات میں شائع ہونے والے لیٹرز اکٹھے کرنے شروع کیے۔
سید مسعود ارشاد کے بقول ان کا خیال تھا کہ اس کام میں حکومت وقت اور سرکاری ادبی اداروں سے مدد لی جائے۔ چنانچہ انہوں نے ہر در پر دستک دی تو پتہ چلا کہ علمی معاملات کے فروغ میں بھی سیاسی اثر و رسوخ اور عروس البلاد کی سکونت ضروری ہے۔ یہ دونوں چیزیں ان کے پاس نہ تھیں۔ چنانچہ انہوں نے تنہا پرواز کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں اٹھارہ سال لگے۔ وہ بالآخر اپنے والد حکیم سید ارشاد کے ایڈیٹرز کے نام لکھے جانے والے خطوط اور دیگر تحریروں کو اکٹھا کر کے اپنی زندگی میں ہی انہیں تین جلدوں کی صورت شائع کرانے میں کامیاب ہوئے۔
سید مسعود نے اپنے انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ ”اپنے والد کی تحریروں کو مختلف اخبارات و جرائد سے اکٹھا کر کے انہیں کتابی شکل دینے سے بھی مشکل کام جو انہوں نے کیا وہ اپنے والد حکیم سید محمد ارشاد کو“ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ ”کا حقدار قرار دلوانا تھا۔“ اس کی کہانی انہوں نے مجھے یوں سنائی تھی۔
” 1994 ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں، میں نے یہ پڑھا کہ ایڈیٹر کے نام زیادہ خطوط لکھنے کا ورلڈ ریکارڈ ایک امریکن مصنف مسٹر ڈیوڈ گرین کا ہے، جب کہ وہ اپنے والد حکیم سید ارشاد کے اس وقت تک خطوط بنام ایڈیٹرز مسٹر ڈیوڈ سے کہیں زیادہ اکٹھے کر چکے تھے۔
انہوں نے ”گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز“ کی انتظامیہ سے انگلینڈ میں رابطہ کیا۔ اور انہیں بتایا کہ یہ ریکارڈ تو حکیم سید ارشاد کا بنتا ہے۔ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی انتظامیہ سے حکیم صاحب کو ورلڈ ریکارڈ دلوانے کے لئے انہیں تین سال تک قائل کرنا پڑا۔ آخر کار 2001 ء میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ والوں نے حکیم سید محمد ارشاد کو سب سے زیادہ ”خطوط بنام ایڈیٹرز“ لکھنے پر ورلڈ ریکارڈ ہولڈر کے اعزاز سے نوازا۔ یہ یقیناً پاکستان کے ادبی حلقوں اور گجرات کے لیے باعث فخر تھا۔ ”
سید مسعود نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ”حکیم صاحب کے اخبارات میں چھپنے والے خطوط نے ان کو اتنی شہرت دی کہ ایک بار پاکستان کے اعلیٰ ترین امتحان پی سی ایس میں ایک دفعہ امیدواروں سے حکیم صاحب کی شخصیت پر مضمون لکھنے کو کہا گیا تھا۔
انگریزی ادب کے استاد پروفیسر سراج الدین مرحوم جو گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی اور سیکرٹری ایجوکیشن بھی رہے، انہوں نے ایک جگہ لکھا کہ ”حکیم صاحب کے خطوط بنام ایڈیٹر پڑھ کر ہمیں بیکن اور مونیٹن کی تحریریں یاد آ جاتی ہیں۔“ زیڈ۔ ایچ ہاشمی سابقہ سیکرٹری ایجوکیشن نے لکھا تھا کہ ”حکیم صاحب نے اخبارات میں اپنے خطوط کے ذریعے تین نسلوں کو تعلیم یافتہ بنایا۔ قوم کو انہیں نہیں بھولنا چاہیے۔“
اخبارات میں لکھنے کے علاوہ حکیم سید ارشاد نے کالج، یونیورسٹی اور مقابلے کے امتحان میں جانے والے نوجوانوں کو انگریزی زبان میں تعلیم دینے کا سلسلہ جاری رکھا۔ وہ بطور انسپکٹر امتحانات پنجاب یونیورسٹی لاہور اور سرگودھا بورڈ سے پندرہ سال تک منسلک رہے۔ ملک میں جیل کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے آٹھ سال تک بطور نان آفیشل وزیٹر خدمات سرانجام دینے کے علاوہ جرگہ کے ممبر بھی رہے۔ وہ سال ہا سال ضلع گجرات کی ویجی لنس کمیٹی کے سینئر ممبر رہے۔ انہیں نیپا اور پولیس ٹریننگ کالج سہالہ کی جانب سے زیر تربیت افسروں کو لیکچر دینے کے لیے تواتر سے بلایا جاتا تھا۔
حکیم سید ارشاد کو خوبصورت انگریزی نثر لکھنے پر ملکہ حاصل تھا۔ ان کی لکھی ہوئی کتابوں میں ”آئیے دعا کریں“ ، ”سفر زیست“ اور انگریزی میں ”پولیس پبلک ریلیشنز اور“ کم بیک ہوم لیڈیز ”شامل ہیں۔
حکیم سید ارشاد ہمیشہ پریس اور شخصی آزادی کے علمبردار رہے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ”پریس ایک عام آدمی کی زبان ہوتا ہے، جسے قطعاً باندھ کر نہیں رکھنا چاہیے۔“ ایوب خان کے مارشل لاء دور میں تعلیمی یا کسی اور حکومتی پالیسی کے خلاف اخبارات میں لکھنا ایک ناممکن سی بات تھی۔
حکیم صاحب نے ایوب خان کو اپنے کمرے میں جارج پنجم کا مقولہ ”خدا مجھے توفیق دے کہ میں نہ کسی کی سستی تعریف کروں اور نہ سستی تعریف قبول کروں“ ، آویزاں کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اور ساتھ ہی وہ ایوب خان کی تعلیمی پالیسی کے خلاف اخبارات میں بے دھڑک لکھتے تھے۔
جب ان کی تحریروں کی گونج ایوان صدر میں پہنچی تو ایک بار صدر ایوب خاں نے سیکرٹری ایجوکیشن سے کہا۔ ”گجرات جاؤ اور تعلیم کے متعلق حکیم سید ارشاد کے خیالات سنو۔“ برٹرینڈ رسل جیسے مغربی مفکر کو حضور پاک ﷺ کی شان میں محض انگریزی کا ایک لفظ غلط لکھنے پر حکیم صاحب نے چیلنج کیا اور اس مغربی مفکر نے راہ فرار اختیار کی۔
حکیم سید ارشاد کے لیے تعریف، الزام، صلہ، سزا، مقبولیت یا اس کی خواہش بے معنی چیزیں تھیں۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اس وسیع و عریض دنیا میں میرا مختصر قیام کیوں اور کس مقصد کے لئے ہے؟ یہ میں خود نہیں جانتا۔ میری زندگی کا تجربہ مجھے یہ بتاتا ہے کہ میرے مزاج والا شخص جو ہمیشہ حقیقت پر مبنی بات صاف طور پر بلا خوف و خطر کہتا ہے اسے حقیر جان کر قابل نفرت سمجھا جاتا ہے، ڈرایا جاتا ہے اور مرنے کے بعد ایسے لوگوں کی تعریف کی جاتی ہے۔
حکیم سید ارشاد کے بڑے فرزند سید مسعود ارشاد بھی اپنے والد کی طرح بہت نفیس اور وضعدار شخصیت تھے۔ وہ 14 نومبر 1947 کو گجرات پیدا ہوئے۔ وہ بھی اپنے والد کی طرح شعبہ تعلیم کے ساتھ ہی وابستہ رہے۔ انہیں سر سید کالج گجرات کی پہلی کلاس کا پہلا طالب علم اور رول نمبر 1 ہونے پر ہمیشہ فخر رہا۔ وہ صحیح معنوں میں اپنے والد کے جانشین تھے۔ حکیم صاحب گجرات کے ماہرین تعلیم شیخ برادران (شیخ شفقت اللہ، شیخ عظمت اللہ) کے ساتھ مل کر سر سید کالج گجرات کے قیام میں بھی پیش پیش رہے تھے۔
حکیم سید ارشاد مرحوم کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ دیگر بہن بھائیوں کی نسبت اپنے والدین کی دیکھ بھال اور خدمت کرنے کا سب سے زیادہ موقع سید مسعود ارشاد کے حصے میں آیا۔ حکیم صاحب کے ایک بیٹے سید انور علی شاہ گوجرانوالہ میں، سید شاہد حسین امریکہ میں ہوتے ہیں۔ جب کہ ایک بیٹے سید اختر ارشاد، ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج رہے ہیں اور وہ آج کل اسلام آباد میں مقیم ہیں۔
سید مسعود ارشاد نے 21 اکتوبر، 2022 کو اپنی وفات سے کچھ عرصہ پہلے مجھ سے حکیم محمد ارشاد کے حوالے سے ایک تفصیلی انٹرویو میں اپنے والد کی تعلیمی و تحریری خدمات کے علاوہ ان کی چوہدری ظہور الٰہی سے گورنر مغربی پاکستان امیر محمد خان، نواب آف کالا باغ سے گجرات کے ( پی ڈبلیو ڈی) ریسٹ ہاؤس میں صلح کروانے کی کہانی سمیت گورنمنٹ سے ایک کنال کا مفت پلاٹ لینے سے انکار کی یادداشتیں تفصیل سے بیان کیں تھیں۔
سید مسعود کے مطابق ان کے والد حکیم سید ارشاد، ڈپٹی کمشنر گجرات کی سربراہی میں قائم کی گئی ”ضلعی ویجی لنس کمیٹی“ کے کئی سال تک ممبر رہے۔ وہ کمیٹی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے اور عوامی فلاح بہبود کے کاموں، تعلیم اور شہریوں کے حقوق سے متعلق اپنی آزادانہ سفارشات دیتے تھے۔
1960 ء کی دہائی میں جب گجرات شہر میں سرکاری طور پر ”مرغزار ہاؤسنگ کالونی“ کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس وقت کے ڈپٹی کمشنر عظمت اللہ خاں نے حکیم ارشاد کی خدمات کے عوض حکومت سے سفارش کی کہ انہیں ایک کنال کا پلاٹ الاٹ کیا جائے۔
ڈپٹی کمشنر کی جانب سے منظوری کے لیے بھجوائی گئی اس درخواست کو گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالاباغ امیر محمد خاں نے منظور کرتے ہوئے پلاٹ دینے کے آرڈر جاری کر دیے۔ ڈپٹی کمشنر نے اپنے آفس میں کمیٹی کی ایک میٹنگ کے دوران وہ خط حکیم سید ارشاد کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے آپ کی تعلیمی و تحریری خدمات کے اعتراف میں آپ کو ایک کنال کا پلاٹ دینے کی منظوری دی ہے۔ جس کا یہ لیٹر آ گیا ہے۔
حکیم سید ارشاد نے ڈی سی کی جانب سے دیا جانے والا لیٹر وہیں بیٹھے بیٹھے پڑھا اور اسی وقت اپنا پن نکال کر ڈپٹی کمشنر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے خط پر یہ نوٹ لکھا کہ ”میرے پاس پہلے ہی رہائش کے لیے اپنا ایک مکان ہے۔ مجھے اس پلاٹ کی بالکل ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے یہ کسی اور ضرورت مند کو دے دیا جائے۔ میں اپنی اولاد کو جائیداد کے لیے لڑانا نہیں چاہتا۔“ سید مسعود کے بقول غالباً وہ ایک کنال کا پلاٹ بعد ازاں معروف پنجابی شاعر، مصنف اور استاد شریف کنجاہی کو دے دیا گیا تھا۔
سید مسعود نے اپنے انٹرویو میں اپنے والد کی قناعت کے متعلق اسی قسم کا ایک اور واقعہ ان الفاظ میں سنایا تھا۔ ”اسی طرح قیام پاکستان کے بعد جب گجرات میں مکان کے حصول کے لیے ان کے والد حکیم سید ارشاد نے متروکہ وقف املاک بورڈ کے دفتر میں اپنا کلیم داخل کیا تو اس کے جواب میں انہیں کچہری روڈ گجرات پر ہندوؤں کی چھوڑی ہوئی ایک وسیع و عریض بلڈنگ الاٹ کر دی گئی۔ جسے دیکھ کر حکیم صاحب نے کہا کہ یہ عمارت ان کی ضرورت سے کہیں زیادہ بڑی ہے۔ اس لیے انہیں مکمل بلڈنگ کی بجائے آدھی بلڈنگ الاٹ کی جائے۔ حکیم صاحب کو آدھی بلڈنگ دے کر بقیہ آدھے حصے پر بعد ازاں سرکاری ریسٹ ہاؤس کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔“
چوہدری ظہور الٰہی کے متعلق ایک واقعہ سناتے ہوئے سید مسعود کا کہنا تھا کہ ”جب صدر ایوب خان کے دور میں نواب آف کالا باغ کے ایما پر انتقامی کارروائی کا نشانہ بناتے ہوئے چوہدری ظہور الٰہی کو ایک جھوٹے مقدمے میں ہتھکڑیاں لگا کر ان کی کوٹھی ظہور پیلس سے پیدل شیشا نوالہ دروازہ (چوک پاکستان) لایا گیا تو حکیم سید محمد ارشاد نے حکومت کے اس صریحاً ظالمانہ اور ذلت آمیز سلوک کے خلاف اخبارات میں ایڈیٹر کے نام خطوط لکھ کر اس فعل کی مذمت کرتے ہوئے حکومت پر سخت تنقید کی۔
جب اخبارات نے ان تنقیدی خطوط کو ناقابل اشاعت قرار دے کر شائع نہ کیا تو حکیم صاحب نے نواب آف کالا باغ اور صدر ایوب خان کو بذریعہ ڈاک کئی خطوط روانہ کیے۔ جن میں چوہدری ظہور الٰہی کے خلاف سیاسی اور جھوٹے مقدمات کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ خطوط کے علاوہ انہیں ٹیلی گرام بھی بھجوائے گئے۔ ”
سید مسعود کے بقول چوہدری ظہور الٰہی والے واقعہ کے کچھ عرصے بعد نواب آف کالا باغ امیر محمد خاں راولپنڈی جاتے ہوئے گجرات میں واقع پی ڈبلیو ڈی کے ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے۔ جہاں انہوں نے ملاقات کے لیے حکیم صاحب کو بلوایا۔ ملاقات کے دوران نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خاں نے حکیم صاحب کو بتایا کہ وہ ان کے چوہدری ظہور الٰہی کے حوالے سے بھیجے جانے والے خطوط کا مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ وہ دل سے ان کی قدر کرتے ہیں۔ اور یہ سمجھتے ہیں کہ آپ نے یہ سب کچھ بغیر کسی لالچ کے محض انسانی جذبے کے تحت کیا ہے۔
اس موقع پر ملک امیر محمد خاں نے حکیم سید ارشاد سے خواہش ظاہر کی وہ چوہدری ظہور الٰہی کو یہاں بلائیں اور ان کی چوہدری صاحب سے صلح کروا دیں۔ بعد ازاں حکیم صاحب کے کہنے پر چوہدری ظہور الٰہی ریسٹ ہاؤس آئے۔ جہاں حکیم صاحب کی مصالحانہ کاوش کی وجہ سے پر چوہدری ظہور الٰہی نے نواب آف کالا باغ سے ہاتھ ملایا۔ اور یوں دونوں کی صلح کی راہ ہموار ہو گئی اور اب پہلے جیسی ناراضی نہ رہی تھی۔
سید مسعود نے بتایا کہ حکیم صاحب کا معمول تھا کہ دوپہر کا کھانا کھا کر وہ قیلولہ کے لیے سو جایا کرتے تھے۔ اس دوران گھر میں خواہ کتنا بھی ضروری کام کیوں نہ ہو۔ کتنا بھی ضروری فون کیوں نہ آ جائے۔ حکیم صاحب نے سختی سے منع کر رکھا تھا کہ انہیں نیند سے بیدار نہ کیا جائے۔
70 ء کی دہائی میں ایک واقعہ یہ ہوا گورنر پنجاب نواب صادق حسین قریشی کے ملٹری سیکرٹری یا اے ڈی سی نے فون کیا کہ گورنر حکیم سید ارشاد سے بات کرنی چاہتے ہیں۔ جس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ حکیم صاحب کے آرام کا وقت ہے۔ وہ اس وقت سو رہے ہیں اور بات نہیں کر سکتے کیونکہ انہوں نے دوپہر کے وقت سوتے میں جگانے سے منع کیا ہوا ہے۔
اے ڈی سی نے وقفے وقفے سے دو تین بار فون کیا کہ گورنر صاحب بار بار انہیں حکیم صاحب سے بات کروانے کا کہہ رہے ہیں۔ اور اب وہ گورنر صاحب کو یہ نہیں بتا رہے کہ حکیم صاحب سو رہے ہیں۔ بعد ازاں حکیم صاحب اپنے وقت پر جاگے تو انہیں گورنر کی جانب سے کی گئی کالوں کے متعلق بتایا گیا۔ جس پر انہوں نے گورنر کو کال بیک کی۔
ایڈیٹر کے نام اپنے خطوط میں اکثر حکیم سید ارشاد دیگر اہم معاملات کے علاوہ تعلیم کے بارے میں حکومت کو اپنی سفارشات دیتے رہتے تھے۔ ایک بار ایسا ہی ایک خط پڑھ کر صدر ایوب خان نے اپنے وزیر تعلیم کو یہ کہتے ہوئے حکیم سید ارشاد کے پاس بھیجا کہ ”گو ٹو گجرات اینڈ لسن ٹو حکیم صاحب۔“ وزیر موصوف گجرات آ کر حکیم صاحب سے ملے اور سیر حاصل گفتگو کرنے کے بعد تعلیم سے متعلق متعدد تجاویز لے کر واپس لوٹ گئے۔
سید مسعود نے حکیم صاحب کی زندگی کا ایک اور واقعہ بھی سنایا۔ جب صدر ایوب خاں کے دور میں اسلام آباد میں تعلیمی پالیسی کے حوالے سے ہونے والی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں حکیم سید ارشاد کو بھی اظہار خیال کے لیے مدعو کیا گیا تھا کہ وہ تعلیمی پالیسی پر اپنی تجاویز دیں۔ تجاویز دینے سے قبل ابھی حکیم صاحب نے حکومت کی موجودہ پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنانا شروع ہی کیا تھا کہ وزیر تعلیم نے ان کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے انہیں بات کرنے سے روک دیا۔
اس پر حکیم صاحب احتجاجاً یہ کہتے ہوئے میٹنگ سے نکل گئے کہ ”اگر ہمیں اسلامی ریاست میں بھونکنے کی بھی اجازت نہیں ہے تو پھر اس ملک کو حاصل کرنے کا کیا فائدہ۔“ جب انہیں وزیر تعلیم کی ہدایت پر دوبارہ منا کر واپس لایا گیا تو انہوں نے وزیر تعلیم سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا کہ ”میں واپس تو آ گیا ہوں مگر اپنے کہے ہوئے الفاظ سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔“
حکیم سید ارشاد نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان آ کر باقاعدہ کوئی ملازمت نہ کی تھی۔ تاہم انہوں نے بطور حکیم گجرات میں ایک مطب ”مبارک دواخانہ“ ، بطور ماہر تعلیم سٹینڈرڈ کالج اور سید ارشاد انگلش اکیڈمی قائم کیے۔ جہاں وہ طویل عرصے تک طلباء و طالبات کو انگلش کی ٹیوشن پڑھاتے رہے۔
حکیم سید ارشاد تقریباً 80 سال کی عمر میں 17 اکتوبر 1987 ء اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اپنی وصیت کے مطابق وہ گجرات میں سائیں کانواں والا دربار سے ملحق قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ جبکہ ان کے صاحبزادے سید مسعود ارشاد 74 برس کی عمر میں 21 اکتوبر 2022 کو انتقال کر گئے۔ ان کی تدفین گجرات کے شادمان قبرستان میں کی گئی ہے۔
حکیم سید ارشاد اکثر کہا کرتے تھے کہ ”خواب غفلت کی شکار قوم کسی کے مرنے کے بعد اس کی تعریف کرتی ہے۔ ایسی قوم مرنے والوں کی برسیاں بھی خوب مناتی ہے۔ چہ جائیکہ اسے اس کی زندگی میں سمجھ لیا جائے۔“