محبوبۂ محبوبِ خدا کہوں صدیقہ کہوں طاہرہ کہوں یا مستبشرہ کہوں ان کا ہر وصف ہر لقب کمال ہے۔ آپ تو وہ خوش نصیب محبوبہ ہیں جنہیں میرے نبی نے پیار سے حمیرا کہا۔وہ عظیم ہستی جن پر لگی تہمت پر سرور کائنات اس قدر مضطرب ہوئے کہ رب کائنات نے خود انکی پاکدامنی کی گواہی دے کر اپنے محبوب کو پُرسکون کیا ، اور آپ تا قیامت سرخرو ٹہریں۔جنکی بنا پر امت کو تیمم کی آسانی ملی۔جنکا دیدار جبرئیل امین ریشم کے کپڑے پہ کرواتے ہیں۔
اماں وہ خوش نصیب بیوی ہیں جن سے محبت کا اقرار تو آقا کریم نے عرب جیسے معاشرے میں سرعام کیا ۔ سوال ہوا آپکو کس سے سب سے زیادہ محبت ہے اور آقا کا بے ساختہ جواب تو دیکھیے عائشہ سے۔۔ اماں اپنی باری میں سوکن کی جانب سے آیا کھانے کا پیالا گرا دیں تو میرے نبی ناز سے ان ٹکڑوں کو چن کے جمع کرتے ہیں اور غلام کو نیا پیالہ دے کر روانہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں تمہاری ماں کو غیرت آگئی۔اماں کی کونسی ایسی ادا تھی تو میرے نبی کو محبوب نہ ہو کونسا ایسا ناز تھا جو میرے نبی نے نہ اٹھایا ہو۔
ام رومان رضی الّلہ عنھا آیت تطھیر نازل ہونے پہ کہتی ہیں اٹھو اور شوہر کا شکریہ ادا کرو اور میری اماں کا ناز سے روٹھنا تو دیکھیے آپ فرماتی ہیں میں اپنے رب کے سوا کسی کی شکر گزار نہیں ہوں جس نے میری برات ظاہر کی۔
دوران سفر ایک بار اماں کا اونٹ بھاگ نکلا میرے نبی اس قدر بے قرار ہوئے کہ بے ساختہ زبان سے نکلا “واعرُوساہُ (ہائے میری دلہن)”۔
کنواری بیوی ہونے کا شرف ہو یا بستر میں وحی آنے کا سب صرف میری اماں کے حصے میں آئے۔ اماں کی گود آپکی زندگی کی آخری آرامگاہ ٹہری اور اماں کا حجرہ تا قیامت جنت کا ٹکڑا۔
لاڈ تو یوں بھی اٹھائے گئے کہ الّلہ کے محبوب آپ سے دوڑ ہار جایا کرتے تھے۔ لاڈلی بیوی پہلوانی کے کرتب دیکھنا چاہیں تو آپ تب تک اوٹ دے کر کھڑے رہتے تھے جب تک وہ خود نہ تھک جائیں۔ایک برتن میں کھاتے اور جس جگہ اماں منہ لگا کر پانی پیتیں پیالے کو وہیں سے میرے نبی بھی نوش فرماتے۔
اماں سے عشق تو اس قدر تھا کہ رب کی بارگاہ میں رب کے محبوب نے کچھ یوں عرض کی یا رب جو چیز میرے اختیار میں ہے میں اس سے باز نہیں آتا (یعنی بیویوں میں عدل) لیکن جو میرے اختیار میں نہیں (یعنی عائشہ سے محبت) اس پر مواخذہ نہ کرنا۔
صحابہ کرام بھی نبی کی اماں سے اس محبت سے اس حد تک باخبر تھے کہ اصحاب کی کوشش ہوتی کہ اماں کی باری میں ہی تحائف اور ہدیے بھیجے جائیں۔ باقی امہات المؤمنین اس بات پہ ملول ہوئیں اور سیدہ کائنات جگر گوشۂ رسول فاطمة الزھراء کو ترجمان بنا کے بھیجا ابا حضور کی خدمت میں۔سیدہ آئیں مدعا عرض کیا تو میرے نبی نے اس قدر مان سے فرمایا: لخت جگر! جس کو میں چاہوں اس کو تم نہ چاہو گی؟؟ یہ باپ کا وہ مان بھرا جملہ تھا کہ سیدہ کائنات ازواج کے اصرار پر بھی دوبارہ اس معاملے کے لیے آنے پہ راضی نہ ہوئیں۔
چھ سال کی کم عمری میں نکاح اور نو سال کی عمر میں رخصتی کے بعد آپ کا پورا لڑکپن جو ہر چیز کو جذب کرنے اور تعلیم و تربیت کا زمانہ ہوتا ہے وہ نبی کریم صلی الّلہ علیہ وسلم کی زیر نگرانی و زیر پرورش گزرا اور اماں اس قدر ذہین و فطین اور حاضر جواب تھیں اور اتنا سیکھا کہ خانگی معاشرتی تاریخ طب ادب ہر ہر شعبے میں آپ کی اس قدر کثیر روایات ہیں کہ ایک تہائی دین آپ سے امت کو پہنچا۔کتاب و سنت، فقہ و احکام میں ان کا مرتبہ اس قدربلند تھا کہ کوئی زوجہ وہاں تک نہ پہنچ سکیں۔۔آپ کو چند بزرگوں کے علاوہ تمام صحابہ کرام پر علمی اعتبار سے فضیلت حاصل ہے۔جہاں کبار صحابہ بھی اٹک جاتے اس مسئلے میں اماں جان سے ہی رجوع کیا جاتا تھا۔
اس قدر مان محبت فضائل کے باوجود سادگی کا یہ عالم تھا کہ گھر کا کل سامان ایک چارپائی، ایک بستر، ایک چھال بھرا تکیہ، دو تین کھانے کے برتن ایک پانی کا برتن اور پیالہ تھا۔ چالیس چالیس دن تک گھر کا چراغ نہ جلتا۔ اور اس حالت میں بھی سخاوت کا عالم دیکھیے کہ حضرت امیر معاویہ رضی الّلہ عنہ کی طرف سے ایک لاکھ درہم موصول ہوتے ہیں ہدیتاً تو اسی وقت تقسیم کر دیے جاتے ہیں۔ خادمہ عرض کرتی ہے روزہ ہے افطار کے لیے تو کچھ رکھ لیا ہوتا ۔ فرماتی ہیں تم نے یاد دلایا ہوتا۔۔
آج اماں کے یوم وفات ۱۷ رمضان کو اماں کی خدمت میں انکی بیٹی کی جانب سے یہ معمولی سا نذرانہ۔کیا معلوم اس چھوٹی سی محبت بھری کوشش پہ روز محشر الّلہ کریم ان سے ملاقات نصیب فرما دیں۔دعاؤں میں میرے لیے آپ سب یہ دعا ضرور کیجیے گا۔
عشق کے فخر کو ، پیکر صبر کو،
علم کے قصر کو، بنت ابی بکر کو،
السلام السلام السلام السلام۔!
زینب بلال
۲۸ ۔۳۔۲۰۲۴