میں شادی کے اول روز خود کو دنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھ بیٹھی ۔ ایک عام سے گھر میں رہنے والی لڑکی کو صرف خوبصورتی کی بنا پہ محلوں کا شہزادہ مل جائے تو اس کی قسمت پہ رشک آتا ہے ۔ مجھے بھی اپنی قسمت پر ناز ہونے لگا ۔ میں سکھیوں کے جھرمٹ میں مہارانی بنی بیٹھی تھی ۔ مجھے لگا جس نے دنیا فتح کی وہ سکندر اعظم نہیں تھا وہ تو میں تھی ، اور یہ میرا دوسرا جنم ہے ۔ جس میں اب ایک مہارانی بن کے آئ ہوں ، جو حسن کے بل پر اپنے دولہا کا دل فتح کرنے جا رپی ہے ۔ چڑھتے جوبن پر دلہناپا عجیب ہی بہار دکھارہا تھا ۔ سمجھ نہیں آتی تھی حسن کی تپش زیادہ ہے یا دلہن کا روپ ۔ جو آنکھ بھی دیکھتی مبہوت رہ جاتی ۔ دیکھنے والوں کو احتراماً نہیں مجبوراً اپنی آنکھیں جھکانا پڑیں ، کہ آنکھوں سے نکلتی خوشیوں کی چمک برداشت سے باہر تھی ۔ کسی کی آنکھ اور دل میں اتنی برداشت کہاں کہ وہ میرے چہرے کی رعنائ و دلکشی سہہ پاتا ۔ بھرے بھرے ہونٹوں پر مصنوعی اور گالوں پرفطری حیا کی لالی نے حسن کو دو بالا کر رکھا تھا ۔ نئ زندگی کی شروعات کے خوابوں نے انگ انگ کو اک مستی عطا کر رکھی ہو تو کون اس حسن کے آگے ٹھہر کر دیکھنے کی جسارت کرتا ۔ ویسے بھی یہ جرات تو اسی کو زیب دیتی تھی جس کے تصور نے روح و بدن میں سرشاری پیدا کررکھی تھی ۔
لیکن کسے خبر تھی ان خوشیوں کی مدت چند گھنٹے ہے
۔ شادی کے اول روز کی تابانیاں رات کی سیاہی میں گھل کر ختم ہونے والی ہیں ۔ حسن کی رعنائیاں ، انداز کی شوخیاں ، آنکھوں کے خواب ، دل کے ارمان جو جانے کتنے دنوں ، مہینوں ،سالوں سے جمع ہو رہے تھے ، ان سب کو بس ایک ہی رات کی تاریکی نگل جائے گی ۔ رات کی سیاہی میرے نصیبوں پر بھی کالک مل دے گی ۔ جیسے ایک پہاڑ کسی مشتاق کے دیدہ شوق کی آرزو میں جلوے کی تاب نہ لا کر جل کر بھسم ہوگیا تھا ۔ ویسے ہی کوئ حسن کی تپش نہ سہہ پایا ، یا حسن نظر انداز کیئے جانے کا صدمہ برداشت نہ کر سکا ، جو بھی تھا میرا تو سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا ۔
اگلے دن کی صبح کسی بدمست گھوڑے کی طرح میری ساری امیدوں اور خوابوں کو پیروں تلے روندتی ، اپنی فتح کا اعلان کرتی نمودار ہوئ ۔ میں جو سر آنکھوں پہ بیٹھنے کا خواب لیکر آئ تھی اسے پیروں میں بھی جگہ نہیں ملی ۔ ایک مرد حاکم نے مجھے بتایا کہ تو ایک عورت ہے تیری ہستی میرے پیروں کے نیچے ہے ۔ میں چاہوں تو تجھے عزت سے نوازوں ، کردار کشی کرنے پہ آؤں تو تجھے منہ دکھانے کے قابل نہ چھوڑوں ، کون ہے جو میری بات کو جھٹلا سکے ۔ اور میں نے جان لیا کہ میں بے توقیر ، میں بے اماں ۔
شادی کی صبح ”مجھ“ پر انکشاف ہوا میں بد کردار ہوں ۔ ہر کوئ ”جائے وقوعہ“ دیکھنا چاہتا تھا اور پھر مجھے بد کرداری کا بصری سرٹیفیکیٹ مل گیا ۔
شادی پہ آئے تمام لوگوں کی انگلیاں میری طرف اٹھ گئیں ۔ ہائے ہائے ایسی معصوم صورت اور یہ کرتوت ۔ خدا بیٹی دے تو نیک دے ۔ ایسی بیٹیوں کو تو جان ہی سے مار دینا چاہیئے ۔ جتنے منہ اس سے دوگنی باتیں ۔ میرے والدین کو بلایا گیا ۔ ہر کسی نے حسب توفیق مجھ پہ لعن طعن کی ۔ میں نے دیکھا میرے بوڑھے باپ کے کندھے جھک گئے ہیں ۔ وہ مجھے ساتھ لیئے سر جھکائے میرے آگے چل پڑا اور میری ماں لوگوں سے نظریں چراتی میرے پیچھے ۔ گھر واپسی پہ کہرام مچ گیا ، ماں مجھے مار مار کے ہلکان ہوگئ تو اپنا ہی سینہ پیٹنے لگی ۔ جانے کس کے سامنے عزت لٹا کے آئ تھی ۔ اتنی ہی منہ زور جوانی تھی تو ہم سے کہتی ، اسی کے ساتھ نکا ح پڑھوا دیتے ، یوں عزت خاک میں تو نہ ملتی ۔ بھائیوں نے منہ موڑ لیا ، بھابھیاں عجیب تولتی نظروں سے دیکھتیں ، بہنوں نے بلانا چھوڑ دیا ۔ باپ نے چپ سادھ لی ، اور چند دن بعد ہی میرے ناکردہ گناہ کا بوجھ اٹھائے خاموشی سے اگلی منزل کو روانہ ہوگیا ۔ میرے ناپاک وجود سے گھر کی پاکیزگی کو خطرہ ہونے لگا ۔ اور یوں مجھے میرے کمرے تک محدود کر دیا گیا ۔
تو یہ طے تھا کہ اب میری زندگی میں آنے والے سارے دن اذیت ناک اور ہر رات پچھلی سے زیادہ وحشت لیئے ہو گی ۔ غیروں سے گلہ کیا کرتی ، میرے تو خونی رشتوں نے میری بات نہ سنی ، اعتبار تو بہت اگلی منزل تھی ۔ بنا جرم کیئے مجھے سزا سنا دی گئ ۔ اب میں ہوں اور کمرے کی تنہائ ہے ۔
مجھ پر الزام ہے کہ میں قابل اعتبار نہیں ، لیکن بھروسے کے قابل تو وہ بھی نہیں جس نے سینکڑوں لوگوں کے سامنے زندگی بھر خوشی اور غم میں ساتھ نبھانے والے معاہدے پر دستخط کیئے تھے ۔ خوشی میں شادیانے اور غم میں نوحہ خوانی کرنا دنیا کی رسم ہے ۔ جب تک دنیا ہے یہی ریت رہے گی۔ خوشی میں کوئ بلائے تو جانا پڑتا ہے ، جبکہ دکھ پر بن بلائے شامل ہوجاتے ہیں ۔ لیکن میرے تو دکھ میں بھی کوئ شامل غم نہ ہوا ۔ زندگی کے ختم ہونے کا سوگ تو سبھی مناتے ہیں ، لیکن روح کے مرنے کا پرسہ کوئ نہیں دیتا ۔ علاج کیا جائے تو جسم کے گھاؤ بھر جاتے ہیں روح اذیت میں ہو تو کسی وید سے اس کی تشخیص نہیں ہوتی ۔ بدن کی پامالی ہو تو کسی کو نظر بھی آئے ، روح کی پامالی کون دیکھے ۔ عورت چاہے کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو ، معتبر تبھی مانی جائے گی جب اس کا مرد گواہی دے گا ۔ اور میرا مرد میری گواہی دے چکا تھا ۔
کچھ عرصہ بعد پھر سے میری ذات نشانے پر آگئ ہے ۔ ” ہر کسی کے زخم جاگے ہیں “ ۔ آفاق حیدر سے ہمدردی اور میری بدچلنی کی داستان پھر سے دہرائ جارہی ہے ۔ آفاق حیدر کی پھر سے شادی ہو رہی ہے ۔ وہی آفاق حیدر جس کی پہلی شادی ایک رات نہ چلی ، پہلی رات ہی اس پر بیوی کی بدچلنی ثابت ہو گئ تھی ۔ ایسی بدکردار بیوی کو وہ اپنے ساتھ کیوں رکھتا ۔ اللہ کرے اب کی بار اسے نیک پارسا عورت مل جائے ۔ ہر کوئ اس کے لیئے دعاگو ہے ۔
لیکن یہ کیا اس کی تو دوسری شادی بھی نہ چلی ۔ لوگ انگشت بدنداں ہیں ، اب کی بار الزام لگانے والا آفاق حیدر نہیں ۔ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والی اس کی پڑھی لکھی بیوی ہے ۔
بظاہر آفاق حیدر ایک مظبوط جوان مرد ہے ، لیکن ازدواجی زندگی گذارنے میں ناکام انسان ہے ۔ اس نے اپنی بیماری کا علاج کروانے کی بجائے عورتوں کو تختہ مشق بنا رکھا ہے ۔ اپنی کمزوری پہ پردہ ڈالنے کو شادی رچاتا ہے اور عورت کو مورد الزام ٹھہراتا ہے ۔ ایسے مرد سے مجھے نہ صرف آزادی دلائ جائے بلکہ اس کو دو عورتوں کی زندگی برباد کرنے پر کڑی سزا بھی دی جائے ۔ بلکہ ایسی سزا دی جائے ۔ تاکہ یہ مزید کسی اور عورت کی زندگی خراب نہ کر سکے ۔ خلع کے دعوے کے ساتھ یہ بیان اس کی دوسری بیوی نے عدالت میں جمع کروایا