منفرد تالیف ”تاریخِ قاسم آباد“
پر تبصرہ
کتاب اورصاحبِ کتاب کا تعارف۔ زیرِ نظر تصنیف بعنوان تاریخِ قاسم آباد (ماضی اور حال کے آ ئینے میں) جناب حاجی محمد اسلم جاوید کے قلم کا شاہکار ہے۔ موصوف نے اپنا سفر سماجی، تجارتی اور سیاسی پلیٹ فارم سے شروع کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان کی رکنیت سے بھی بہرہ ور ہوئے۔ آج کل ہمہ وقت دینی، اصلاحی اور فلاحی سرگرمیوں میں ہمہ تن مصروف نظر آتے ہیں۔ عام لوگوں کی نظر میں کسی کتاب پر نقدوجرح اور اُس کی خامیوں کو گنوانے تک محدود ہے حالانکہ اُس کے محاسن اور نقائص دونوں پیش نظر رہنے چاہیں۔
کتاب کے خدّوخال
کتاب ہذا آٹھ مقتدر شخصیات کی تقاریط، چارابواب، 155 صفحات، انتساب، مقدمہ، 124 ذیلی عنوانات اور موقع محل کے مطابق 121تصاویر سے مزیّن ہے۔ صاحبان ِ تقاریط ہونے کی سعادت، عزت ماب جناب ڈاکٹر طارق سلیم امیر جماعت اسلامی شمالی پنجاب، پروفیسر صدیق مجاہد کنجاہی، ڈاکٹر محمد ارشد چوہدری، احسان فیصل کنجاہی، ڈاکٹر سید سلیمان حیدر، انجینیئر محمد احسن ہاشمی قاسم آبادی، پروفیسر حافظ محمد مبشر احمد قاسم آبادی اور محمد عر فان ہاشمی قاسم آبادی کو حاصل ہوئی ہے۔
ابواب کی ترتیب کچھ یوں ہے۔
پہلا باب۔ قاسم آباد 1222ء تا1947ء
دوسرا باب۔ قاسم آباد 1947ء سے 2023ء تک
تیسرا باب۔ تاریخِ قلعدار 1651ء سے2023ء تک
چوتھا باب۔ قاسم آباد 2023میں
کتاب کی جلد کے باہر صاحبِ تالیف نے اہلِ قاسم آباد کی شان میں ایک عدد نظم بھی پیش کی ہے جو احسن اقدام ہے۔یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کی تکمیل تالیف میں موء لف کی”بیٹیوں کو بھی تعاون کی سعادت حاصل ہوئی اور پروف ریڈنگ جیسا فریضہ ادا کیا۔
فہرست اور متن کا ربط
زیرِ نظر کتاب کی فہرست عنوانات قابل دید بھی ہے اور باعثِ تقلیدبھی عنوانات کت اندراج میں ”بلیک انک“اورصفحات نویسی میں ”ریڈاِنک“ کا استعمال کیا گیا ہے۔ ابواب اور ذیلی عنوانات میں ”فونٹ“ کا تفاوت ایک اچھی جدّت ہے۔ تاکہ امتیاز قائم رہے۔ صاحب کتاب نے حتی الوسع کوشش کی ہے کہ کسی اہم امر سے چشم پوشی نہ کی جائے، غیر ضروری تفصیلات سے گریز کیا جائے اور موضوع سے ہٹ کر بھی کوئی بات نہ کی جائے اسی طرح متنازعہ امور سے بھی اجتناب کیا جائے جس کی موء لّف نے بھر پور کوشش کی ہے اور اُن کا یہ امر قابل تحسین ہے کیوں کہ محقق کا غیر جانب دار ہونا ہی اصل تحقیق ہے۔ جس گاؤں کی مصنف نے تاریخ لکھی ہے وہ کسی دور میں اتنا اہم تو تھا نہیں کہ اُس پر کوئی وافر تحریری مواد دستیاب ہوتا۔ معلومات کے حصول کے لئے حاجی صاحب نے اُ دھیڑ عُمر لوگوں سے مُلاقاتیں کیں اور قاسم آباد بارے اُن سے تاریخی حقائق اخذ کر کے کتاب کی زینت بنائے۔
اسلوبِ نگارش۔ زیر تبصرہ کتاب کی زبان سادہ اور عام فہم ہے۔ عبارت میں محاورہ کی نسبت روز مرّہ کی تا ثیر غالب ہے، کسی کتاب کا اہم اور بنیادی مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ عام لوگ اُس سے استفادہ کر سکیں۔ البتہ تحریرمیں تقریری انداز کا غلبہ ہے۔ علاقہ اور خصوصاََ گاؤں سے متعلق چھوٹی بڑی تمام معلومات کو اکٹھا کر کے اور اُن کا تجزیہ کرکے قاری تک پہنچانے کی سعی کی گئی ہے زیادہ تر عوامی زبان کا سہارا لیا گیا۔یہی وجہ ہے کہ پنجابی زبان کے بکثرت الفاظ اور اصطلاحات کتاب میں جابجا نظر آتی ہیں۔ بنیادی طور پر چونکہ یہ ایک اُردو کتاب ہے اِ س لئے مناسب ہوتا کہ کِسی چیز یا عمل کا پہلے اُردو نام لکھا جاتا پھر مزید تفہیم کیلئے بریکٹ میں اُسکا پنجابی یا انگریزی مترادف لکھا جاتا، جو کہ معروف طریقہ ہے مجموعی لحاظ سے کتاب کی زبان سلیس ہے۔ تا ہم تفہیم کی خاطر حسبِ ضرورت محاورات کا استعمال بھی کیا گیا ہے مگر وہ خال خال ہیں۔ عقل و نقل ہر دو طریقوں سے قاری تک معلومات پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔دینی اور دستاویزی ریکارڈ کے ساتھ بات سمجھا نا مولّف کا اچھوتا کمال ہے یہی وجہ ہے کہ گاؤں کے نام کی سرکاری اور پبلک کی سطح پر تبدیلی کی خاطر جتنے تحریری اقدام کئے گئے، حکام یا لا کو جتنے خطوط لکھے گئے، اُن کے احکام جو ما تحت افسران تک پہنچائے گئے، اُن سب کے عکس کو کتاب کی زینت بنایا گیا ہے۔ تاکہ قاری کے اندر بھی فلاحی اور تنظیمی امور کو سر انجام دینے کا جذبہ کروٹ لے۔ ایسے خطوط اور قومی اختیارات کے تراشوں کی تعداد17ہے جنھیں اِ س تالیف میں مناسب جگہ دی گئی ہے۔علاوہ ازیں علاقہ اور گاؤں بارے ادنیٰ سے ادنیٰ جُزئیات اور بڑے بڑے منصوبوں بارے بھی آنے والی نسلوں کو اگاہ کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے۔ گاؤں میں موجود اہم اداروں اورمقامات کا ذکر کیا گیا مساجد، مدارس وغیرہ۔
حواشی و حوالہ جات
”تاریخِ قاسم آباد“ میں انمول معلومات محض پہنجائی ہی نہیں بلکہ پہنچانے کا موء لّف نے حق ادا کر دیا ہے بڑے سے بڑے اور قدیم شہر بارے بھی اِس قدر جُزئیات رسانی دیکھنے کو نہیں ملیں۔
آخر میں اللہ کریم کے حضور دُعا ہے کہ اللہ کریم حاجی محمد اسلم جاوید دامت بر کا تھُم کے زورِ قلم میں اور اضافہ فرمائے اور اُن کے جزبہ خدمت خلق کو مزید پروان چڑھائے
آمین!
حافظ محمد بشیر گلیانوی