گجرات (پاسبان نیوز)جامعہ گجرات کی طلبہ سوسائٹی ریڈرز کلب اور قائد اعظم لائبریری کے اشتراک سے تصنیف کے عنوان سے ایک تقریب ”گجرات نگاری: شیخ عبدالرشید کے قلم سے“ کا انعقاد حافظ حیات کیمپس میں ہوا۔ یہ تقریب جامعہ گجرات میں جاری بک فیئر کے سلسلہ کی ایک اہم کڑی تھی۔ تقریب کی مہمان خصوصی ممتازکالم نگار، شاعر و دانشور ڈاکٹر صغریٰ صدف تھیں۔مہمانان اعزاز میں ڈائریکٹر جنرل پنجاب لائبریریز کاشف منظور، ڈاکٹر امجد طفیل، پیر ضیا ء الحق نقشبندی، کلیم احسان بٹ، گگن شاہد، عتیق انورراجہ اورصاحب کتب شیخ عبدالرشید شامل تھے۔ میزبانی کا فریضہ کوارڈینٹر ریڈرز کلب ڈاکٹر رخسانہ ریاض نے سرانجام دیا۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا کہ گجرات علم و دانش کا شہر ہے۔ تاریخ نگاری ایک مشکل مرحلہ ہے مگر شیخ عبدالرشید نے گجرات کے کونے کھدروں میں مدفون تاریخ کو شخصیات کے حوالہ سے نہایت لگن سے ڈھونڈ نکالا ہے۔ انہوں نے مختلف شخصیات کی کامیاب خاکہ نگاری کے ذریعے گجرات کی کھوئی ہوئی تاریخ کی جستجو کی ہے۔ گجرات کے ادیبوں اور دانشوروں کو ملکی و عالمی سطح پر خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ شیخ عبدالرشید نے گجرات کی عظیم علمی و ادبی روایت کو زندہ و برقرار رکھتے ہوئے مستقبل کی نسلوں کے لیے شخصیات نگاری کی صورت میں تاریخ کو محفوظ کر لیا ہے۔ کاشف منظور نے کہا کہ شیخ عبدالرشید ایک متحرک، ہمہ جہت اور ادب دوست شخصیت کے مالک ہیں۔ شیخ عبدالرشید کو سماجی مؤرخ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ شیخ عبدالرشیدکو اگر مؤرخ گجرات کہا جائے تو مضائقہ نہ ہو گا۔ شیخ عبدالرشید کے خیال میں لکھنا اور خوب لکھنا ہی زندگی کا مطمع نظر ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل نے کہا کہ شیخ عبدالرشید نے اپنی کتابوں کے ذریعے گجرات کے عظیم ادیبوں، صحافیوں، سماجی شخصیات اورفنون لطیفہ سے وابستہ لوگوں کو کامیابی سے نسل نو سے متعارف کروانے کا فریضہ سرانجام دیا ہے۔ صاحب کتاب کا خلوص شخصیات کے پس منظر و سماجی ماحول کو بیان کرتے ہوئے قاری کے سامنے عیاں ہوتا ہے۔ شیخ عبدالرشیداپنی جنم بھومی خطہ گجرات سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں۔ صاحب کتاب سہل اور رواں انداز میں قاری کو مایہ ناز شخصیات سے متعارف کروائے چلا جاتا ہے۔ پیر ضیاء الحق نقشبندی نے کہا کہ کتب بینی ایک تہذیبی و سماجی ذوق و شوق ہے۔ کتاب علم کا منبع اور علم تہذیب و تمدن کا روح رواں ہے۔ شیخ عبدالرشیدکی مایہ ناز کتابوں کی تشہیر ہم سب پر لازم ہے۔ کلیم احسان بٹ نے کہا کہ شیخ عبدالرشیدایک متحرک شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ مجلس آرائی اور طرز گفتگو کی بدولت لوگوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ کتاب فہمی اور شخصیت نگاری شیخ عبدالرشیدکی تحریروں کا خاصہ ہے۔ شیخ عبدالرشیدشخصیت نگاری میں مثبت اوصاف کو بیان کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ شیخ عبدالرشیدکی کتابوں میں مقامی شخصیات کے مرقعوں اور خاکوں کی صورت میں ماضی کا گجرات زندہ جاوید ہو گیا ہے۔ ان کا اسلوب رواں اور سادہ ہے۔گگن شاہد نے کہا کہ علاقائی تاریخ کو قلم بند کرنا ایک کار عظیم ہے۔ شیخ عبدالرشیدکی کتابیں کامل تحقیق و جستجو کا مظہر ہیں۔ یہ کتابیں صحیح معنوں میں قاری کی معلومات میں اضافہ کرتی ہیں۔ شیخ عبدالرشیدنے واقعتا کھوئے ہوئے لوگوں کا یاد نامہ لکھا ہے۔ عتیق انور راجہ نے کہا کہ مصنف نے نہایت خلوص اور لگن سے گجرات کی عظیم شخصیات پر مواد اکٹھا کرتے ہوئے قاری کو بھولی بسری شخصیات سے متعارف کروایا ہے۔ گجرات نے کئی عظیم ہستیوں کو جنم دیا ہے۔ شیخ عبدالرشیدنے ماضی کے علمی دفینوں اوربچھڑی ہوئی شخصیات کو کامیابی سے متعارف کروایا ہے۔ صاحب کتاب شیخ عبدالرشید نے کہا کہ لوگوں کی محبتیں اور خلوص پانے والے کبھی لا حاصل زندگی نہیں گزارتے۔ گجرات کی شناخت میری تحریروں کا مرکز و محور ہے۔ گجرات اور اہل گجرات کی بات کرتے ہوئے میں دلی اطمینان محسوس کرتا ہوں۔ خطہ گجرات نے ماضی و حال میں پاکستان کی نامور شخصیات کو جنم دیا۔ گجرات کی عظمت کے گیت گانا ہی میرا شیوہ رہا ہے۔ گجرات کے بارے میں لکھتے ہوئے دراصل میں نے مٹی کا قرض چکانے کی کوشش کی ہے۔ ارض گجرات سے محبت میری سانسوں میں بسی ہوئی ہے۔ نئی نسل کو اسلاف کے کارناموں سے آگاہ کرتے ہوئے ہم روشن مستبقل کی امید کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر رخسانہ ریاض نے کہا کہ شیخ عبدالرشیدکا پیرایہئ اظہار قاری کو گرویدہ بنا لیتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریر کے ذریعے صاحب اسلوب ہونے کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ پختہ و دل نشین نثر کے ذریعے ماضی کی داستانوں کو بیان کرتے چلے جاتے ہیں۔ تقریب میں جامعہ گجرات کے مختلف شعبہ جات کے طلبہ و اساتذہ، صدور و چیئرپرسن، انتظامی شعبہ جات کے اراکین سمیت سابق وائس چانسلر KFUEITڈاکٹر محمد سلیمان طاہر نے خصوصی شرکت کی۔