تحریر عاطف نواز………..پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد 1996 میں سابق کرکٹر اور ورلڈ کپ 1999 کے فاتح کپتان عمران خان نے رکھی ضلع گجرات میں تحریک انصاف کا باقاعدہ آغاز 2007 ،2008 میں میجر خلیل الرحمن سمرالہ، چوہدری عثمان منظور دھدرا،آصف حسین سلیمی،چوہدری تیمور اکرم ،تنویر گل،عثمان علی طارق،ثاقب ورک،ڈاکٹر کنور عثمان غنی چوہدری شفیق اور دیگر چند لوگوں نے کیا۔اس سے پہلے 2001 کے بعد ضلع گجرات میں چند نوجوانوں نے تحریک انصاف جوائن کر لی تھی اور لیکن عملی طور پر سامنے نہیں آرہے تھے سمرالہ میں تحریک انصاف نے میجر خلیل الرحمن کے گھر پہلی پریس کانفرنس کی۔ جس کے بعد ضلع گجرات میں تحریک انصاف متحرک ہوئی اس سے پہلے بڑے نام تحریک انصاف میں آئے اور چلے گئے لیکن انہوں نے عملی طور پر کچھ نہیں کیا اس لیے مختصر طور پر عرض کر رہا ہوں کچھ عرصہ بعد نوازش علی شیخ ایڈووکیٹ نے جماعت اسلامی سے اختلافات کے بعد باقاعدہ عمران خان صاحب سے ملاقات کی اور لالہ موسٰی میں ایک بھرپور پریس کانفرنس میں عمران خان صاحب کی موجودگی میں تحریک انصاف جوائن کی جس کے بعد تحریک انصاف ضلع گجرات کے مردہ گھوڑے میں جان آئی اور دن رات کام شروع کر دیا گیا 2008 کے الیکشن کے بعد جوڑ توڑ عروج پر پہنچا اور پہلی دفعہ گجرات میں عمران خان صاحب کا فوارہ چوک میں بھرپور جلسہ کا انعقاد کیا گیا 2008 کے الیکشن کے بعد ضلع گجرات کے کافی سیاستدان جن میں راجہ نعیم نواز،چوہدری ناصر احمد چھپر ،چوہدری لیاقت بھدر، سید برادران کلیوال ( جو کہ بعد میں ن لیگ میں اور ق لیگ میں رہنے کے بعد دوبارہ تحریک انصاف میں واپس آئے)چوہدری ارشد ، الحاج افضل گوندل ، ساجد یوسف چھنی ،چوہدری زاہد اکرم ایڈووکیٹ،چوہدری وقار منیر لنگڑیال،چوہدری، تاشفین صفدر مرالہ ، تنویر گوندل سمیت کافی لوگوں نے تحریک انصاف جوائن کی اس دوران کافی راہنماوں نے تحریک انصاف چھوڑی اور جب حالات بہتر ہوئے تو دوبارہ واپس آگئے 2024 کے الیکشن تک تحریک انصاف پہ کافی نشیب و فراز آئے 2018 کے جنرل الیکشن میں کامیابی کے بعد تحریک انصاف پنجاب ، کے پی کے اور مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی لیکن جماعت کے اندر اختلافات (جس کی بڑی وجہ غیر نظریاتی اور مفاد پرست ٹولے کو جماعت مں شامل کرنا ان کو اعلیٰ عہدوں پہ تعینات کرنا اور نظریاتی کارکنوں کو مسلسل نظر انداز کرنا) کی وجہ سے تحریک انصاف مرکز میں تحریک عدم اعتماد کی وجہ سے حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھی سونے پہ سہاگہ عمران خان نے پارٹی قیادت کی جانب سے تحفظات کے باوجود پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد تحریک انصاف زوال کا شکار ہوتی گئی اسی دوران 9 مئی کا واقعہ رونما ہوا جس کے بعد تحریک انصاف کے کافی سارے لوگ تنکوں کی طرح بکھر گئے تحریک انصاف کے قیام کے بعد پارٹی پہ پہلی آزمائش آئی اور جتنے غیر نظریاتی لوگ پارٹی میں شامل تھے وہ دوسری پارٹیوں میں شامل ہو گئے کچھ خاموش ہو گئے 2024 کے الیکشن میں حادثاتی طور پر جتنے لوگوں کو ٹکٹ دئیے بلا شک و شبہ عمران خان کے ڈٹ جانے کی وجہ سے کامیاب ہوئے لیکن پاکستان کی تاریخ کے متنازعہ ترین الیکشن کی نذر ہو گئے تحریک انصاف کے قیام سے لیکر 2024 کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف 3 دھڑوں میں بٹ گئی 1 دھڑا وہ جنہوں نے پارٹی بدل لی 2 دھڑا وہ جنہوں نے مزاحمت کی جن میں چوہدری پرویز الٰہی ، چوہدری سلیم سرور جوڑا شامل ہیں 3 دھڑا وہ جو حالات کو دیکھ رہے ہیں کہ اگر حالات سازگار ہوئے تو ہم واپس پی ٹی آئی میں آجائیں گے اگر حالات سازگار نہ ہوئے تو کسی اور پارٹی میں چلے جائیں گے 2024 کے الیکشن میں ضلع گجرات سے تحریک انصاف 2 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ایک ایم این چوہدری محمد الیاس اور دوسری ایم پی اے چوہدری شاہد رضا کوٹلہ جہاں تک میری سوچ ہے چوہدری شاہد رضا کوٹلہ کی سیٹ کہ پیچھے ان کی بھائی ہو سکتے ہیں اگر چوہدری نعیم رضا چاہتے تو شاید یہ سیٹ ان کو مل جاتی لیکن شاید وہ بھائی کی محبت کے آگے بے بس تھے دوسرا چوہدری محمد الیاس جس کی صورت حال ابھی تک گو مگو کا شکار ہے لیکن اس وقت تک جو حالات نظر آرہے ہیں اس میں واضح نظر آرہا ہے کہ چوہدری الیاس ق لیگ میں شامل ہو چکے ہیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ اس میں کتنی سچائی ہے لیکن اس ساری صورت حال میں صرف سوشل میڈیا پہ بیٹھ کر جنگ نہیں لڑی جا سکتی کیونکہ چوہدری پرویز الٰہی کے خاندان نے احتجاج کا اعلان کیا جس میں کوئی خاص رہنما اس میں شریک نظر نہ آیا جبکہ حلقہ میں ریکارڈ ووٹ لینے کے باوجود سید وجاہت حسنین شاہ بھی شاید کسی دباو کی وجہ سے خاموش ہو گئے اس وقت عملی طور پر ضلع گجرات میں چوہدری پرویز الٰہی اور چوہدری سلیم سرور جوڑا ہی نظر آرہے ہیں آنے والے حالات کیا کہتے ہیں اس کیلیے کچھ انتظار کرنا ہو گا اس میں تحریک انصاف کے کافی سارے لوگوں کے نام اور تصویریں نہیں لکھیں مقصد ساری صورت حال کو مختصر کرنا تھا۔