چودہ اگست 1947 کو جب پاکستان نامی ایک نئی اسلامی ریاست دنیا کے نقشے پر طلوع ہوئی تو سعودی فرماں روا شاہ عبدالعزیز آل سعود وہ پہلے عالمی رہنما تھے جنہوں نے بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم کو ٹیلی فون کرکے مبارک باد پیش کی ۔سعودی عرب کے سابق سینئر سفارت کار ڈاکٹر علی عواض العسیری کے مطابق پاک سعودی عرب تعلقات کا آغاز تو قیام پاکستان سے قبل ہی تب ہوا ، جب 1940 میں قرارداد ِپاکستان کی منظوری کے بعد اُس وقت کے سعودی ولی عہد شہزادہ سعود بن عبد العزیز نے کراچی کا دورہ کیا اور مرزا ابو الحسن اصفہانی سمیت آل انڈیا مسلم لیگ کے رہنماوں نے ان کا پُر تپاک استقبال کیا ۔اقوام متحدہ کے جن رکن ممالک نے پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کیا ، ان میں سعودی عرب بھی شامل تھا ۔ 1946میں قائد اعظم کی ہدایت پر ابوالحسن اصفہانی کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک وفد نیویارک پہنچا ۔اس وفد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ اقوام متحدہ کے صدر دفتر کا دورہ کرے اور تحریک پاکستان کے لیے عالمی رہنماوں کی تائید حاصل کرے ۔اُس وقت اقوام متحدہ کا اجلاس جاری تھا ۔چونکہ پاکستان کا قیام ابھی عمل میں نہیں آیا تھا ،اس لیے مسلم لیگ کے وفد کو اجلاس میں شرکت سے روک دیا گیا۔مذکورہ اجلاس میں سعودی وفد کی قیادت شہزادہ فیصل بن عبد العزیز کر رہے تھے ۔انہیں جب اس صورت حال کا علم ہوا تو بنفسِ نفیس خود باہر تشریف لا کر مسلم لیگ کے وفد سے ملاقات کی ۔بعد ازاں وفد کے اعزاز میں اپنے ہوٹل میں ظہرانہ رکھا اور عالمی رہنماوں کو وہاں مدعو کرکے کہا کہ برصغیر کے مسلمانوں کا وفد آپ کے سامنے اپنا موقف رکھنا چاہتا ہے ۔چنانچہ نیویارک کے ہوٹل میں وفد نے عالمی رہنماوں کے سامنے اپنا موقف پیش کیا ۔سقوطِ ڈھاکہ کے سانحے کا شاہ فیصل کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ پاکستان کی طرف سے بنگلہ دیش کو تسلیم کیے جانے کے بعد بھی کافی عرصے تک وہ اس نئی ریاست سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے گریزاں رہے ۔1974 میں لاہور میں اسلامی ممالک کی تنظیم کا لاہور میں ہونے والا سربراہی اجلاس بھی پاک سعودی تعلقات کا ایک شان دار باب ہے ۔ یہی وہ وقت تھا کہ سعودی عرب نے پاکستانی افرادی قوت کے لیے اپنے دروازے کھول دئیے اور بھارت کے جوہری عزائم کو ناکام بنانے کے لیے بھٹو حکومت کو مالی امداد فراہم کی ۔پاکستان اور سعود ی عرب یک جان دو قالب ہیں ۔پاکستان اور سعودی عرب ایک دوسرے کے دفاع کواپنا دفاع خیال کرتے ہیں۔دونوں ملکوں کی قیادت کے مابین ملاقاتوں میں دو طرفہ دفاعی و سکیورٹی تعاون ، علاقائی امن و استحکام ، انسداد دہشت گردی سمیت باہمی دل چسپی کے مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوتا رہتا ہے ۔ رواں برس ماہِ اگست میں پاکستانی برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب کا سرکاری دورہ کیا ۔اس دورے کے دوران انہوں نے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدا العزیز آل سعود سمیت مختلف اعلیٰ سول و عسکری حکام سے ملاقاتیں کیں۔اس موقع پر دونوں ملکوں نے دوستانہ تعلقات اور بھائی چارے کو کے گہرے جذبے کو پائیدار سٹریٹجک پارٹنر شپ میں مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا ۔رواں برس ماہِ اکتوبر میں جب آرگنائزیشن آف پیٹرولیم ایکسپورٹنگ کنٹریز (اوپیک )پلس میں شامل اتحادی ممالک نے ویانا اجلاس کے دوران تیل کی پیداوار میں یومیہ بیس لاکھ بیرل کمی پر اتفاق کیا تو اس فیصلے کو روس کی حمایت کرنے کا اقدام قرار دیتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب پر سخت تنقید کی ۔امریکی صدر کے بیان کے بعد پاکستان نے سعودی عرب سے اظہار یکجہتی کیا ۔پاکستانی دفتر خارجہ نے مارکیٹ میں اتار چڑھاو سے بچنے اور عالمی اقتصادی استحکام کو یقینی بنانے کے بارے میں سعود ی عرب کے خدشات کو سراہا ۔دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان اس طرح کے معاملات پر بات چیت اور باہمی احترام پر مبنی تعمیری سوچ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ہم سعودی عرب کے ساتھ اپنے طویل برادرانہ تعلقات کا اعادہ کرتے ہیں۔
عوامی سطح پر بھی دونوں ملکوں کے مابین محبت و احترام کے گہرے جذبات پائے جاتے ہیں۔ سابق سعودی فرماں روا شاہ فیصل کے نام سے موسوم شاہ فیصل مسجد اسلام آباد ، فیصل آباد ، شارع فیصل کراچی اس محبت کا واضح ثبوت ہیں۔دوسری جانب ریاض اور جدہ میں بھی بانی پاکستان کی یاد میں ’’ شارع محمد علی جناح ‘‘ کے نام سے سڑکیں موسوم ہیں۔26 نومبر 2009 کو جدہ میں آنے والے سیلاب میں فرمان علی نامی ایک پاکستانی مزدور نے اپنی جان پر کھیل کر چودہ سعودی شہریوں کی جان بچائی ۔سعودی عوام اور حکومت نے اس قربانی پر فرمان علی کو خراج عقیدت پیش کیا اور انہیں بعد از شہادت اعلیٰ سعودی ایوارڈ عطا کرنے کے علاوہ جدہ کی ایک شاہ راہ کو بھی ان کے نام سے موسوم کیا ۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان بن عبدالعزیز آل سعود نے عہدہ سنبھالنے کے بعد نہایت مختصر عرصے میں اپنی لیاقت ، معاملہ فہی ، شجاعت اور حسنِ انتظام کا لوہا منوایا ہے ۔انھوں نے ایک جانب عظیم سعودی مملکت کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ویژن 2030 جیسے فقید المثال منصوبے کا آغاز کیا ، تو دوسری جانب مملکت اور عالم اسلام کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلانے کی خاطر عالمی اسلامی فوجی اتحاد کی بنیاد رکھی ۔وہ ایک طرف اندرونِ ملک کرپشن کے خاتمے اور نظام مملکت کو عوام دوست بنانے کی کامیاب کوشش کررہے ہیں اور دوسری جانب عالمی سطح پر سعودی عرب کے پرانے دوستوں کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرتے ہوئے روس اور چین جیسے طاقت ور ممالک کے ساتھ پُر اعتماد تعلقات قائم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اب پاکستان اور سعودی عرب کے مابین تجارتی تعلقات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے ۔اگر سعود ی عرب ، چین،روس اور پاکستان باہم مل کر اس خطے میں ایک مضبوط بلاک بنائیں تو یہ لازوال دوستانہ تعلقات محبت ، احترام اور ایک دوسرے کے مفادات کو مقدم رکھنے کے نئے خوش گوار دور میں داخل ہو جائیں گے ۔