امریکہ نے پاکستانی جوہری اثاثوں کی سکیورٹی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے انہیں محفوظ قرار دے دیا ۔امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ایک پریس کانفرنس میں امریکی صدر کے بیان پر باضابطہ وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کو پاکستان کی جوہری اثاثوں کی حفاظت کی صلاحیت اور عزم پر اعتماد ہے ۔ پاکستان عالمی برادری سے اپنے وعدے پورے کر رہا ہے ۔پاکستان سے دو طرفہ تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں ۔ہم ایک مضبوط شراکت داری کے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں اور اس کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔امریکی ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ پُر امن اور مستحکم پاکستان کا خواہا ں رہا ہے کیونکہ محفوظ اور خوش حال پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہے ،جس کے لیے امریکہ نے ہمیشہ تعاون کیا ہے۔واضح رہے کہ چودہ اکتوبر کو ڈیموکریٹک کانگریس کی مہم کمیٹی کے استقبالیے سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ پاکستان شاید دنیا کی خطرناک ترین قوموں میں سے ایک ہے کیونکہ اس کے جوہری ہتھیار غیر منظم ہیں۔
امریکی صدر کے اس اشتعال انگیز بیان پرپاکستان میں سرکاری سطح پر شدید ردِ عمل سامنے آیا ۔پاکستانی دفتر خارجہ نے امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کو فی الفور طلب کیا اور امریکی صدر کے بیان پر پاکستان کی ناراضی سے آگاہ کرتے ہوئے اپنا بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا۔بعد ازاں اسی سلسلے میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم جوہری ہتھیاروں کی سکیورٹی اور سیفٹی کے سلسلے میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کی طرف سے وضع کردہ تمام بین الاقوامی معیاروں کی پیروی کرتے ہیں۔صد ر بائیڈن کے اس بیان کی وجہ غلط فہمی ہو سکتی ہے جو روابط کے فقدان سے جنم لیتی ہے۔
وفاقی وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ صدر بائیڈن نے پاکستان کے بارے میں جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا ،وہ بالکل غلط ہیں۔جب میں وزیر دفاع تھا ،اس وقت کی میری اطلاع کے مطابق ہمارے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بین الاقوامی ایجنسیاں ایک نہیں درجنوں بار تصدیق کر چکی ہیں کہ ہمارا کمانڈ اینڈ کنٹرول بالکل محفوظ ہے ۔بین الاقوامی معیارات کے مطابق اس کی ہر طرح کی سکیورٹی موجود ہے ، لہٰذا امریکی صدر کے الزامات بالکل بے بنیاد ہیں۔
اٹھارہ اکتوبر کوجنرل ہیڈ کوارٹرز راول پنڈی میں منعقدہ کور کمانڈرز کانفرنس میں پاکستانی عسکری قیادت نے ملک کے جوہری اثاثوں کے کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی قوت ہے ۔
سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل(ر) معین الدین حیدر نے کہا کہ یہ پاکستان کے ساتھ زیادتی ہے ۔ہمارا ریکارڈ اچھا ہے اور ہر مرحلے پر ہم نے امریکہ سے تعاون کیا ہے ۔اس وقت لگتا یہی ہے کہ امریکہ یہی مطالبہ کرنا چاہتا ہے یا پاکستان پر دباو ڈالنا چاہتا ہے کہ وہ روس اور چین سے کنارہ کشی اختیار کر لے جو آج کل کی عالمی سیاست میں ممکن نہیں ہے ۔ہمیں اس بات کی آزاد ی ہونی چاہئے کہ ہم کس ملک سے تعلقات بڑھانا چاہیں اور اس کے لیے ہمیں ہمت کرکے قدم اٹھانا پڑے گا ۔
سابق سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے کہا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو غیر منظم کہنا غلط ہے اور حقائق کے بالکل برعکس ہے ۔خود امریکہ نے کئی مواقع پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے منظم ہونے کی تائید کی ہے ۔
بی بی سی اردو کے مطابق دفاعی تجزیہ کار سید محمد علی نے اس سلسلے میں کہا کہ یہ بائیڈن کا ایک سیاسی بیان ہے ۔رواں سال مارچ کی بات ہے کہ انڈیا نے ، بقول ان کے ’ غلطی ‘ سے ، پاکستان کی سرحد میں میزائل چھوڑدیا تھا جس سے معجزاتی طور پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔اس بات پر امریکہ نے کسی قسم کے خدشات کا اظہار نہیں کیا ۔لیکن یہی غلطی اگر پاکستان سے سرزد ہوئی ہوتی تو اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس بلوا لیا جاتا۔انہوں نے کہا کہ نومبر میں امریکہ میں مڈ ٹرم الیکشن ہونے والے ہیں جس کے لیے امریکہ ایسے لوگوں کی توجہ اور حمایت چاہتا ہے جہا ں سے انھیں ووٹ ملیں۔جہاں تک پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے غیر منظم ہونے کی بات ہے تو ایسا نہیں ہے ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ امریکہ کے تعاون سے پاکستان میں ایک ادارہ بھی قائم ہے جس کو پاکستان سینٹر آف ایکسیلنس فار نیو کلئیر سکیورٹی کہا جاتا ہے ۔اس ادارے میں عالمی ممالک کے ماہرین شامل ہیں، وہ نیو کلئیر سکیورٹی کو دیکھتے ہیں اور اپنی رپورٹ بھی پیش کرتے ہیں،اور پاکستان کا اب تک کا ریکارڈ بالکل صحیح ہے ۔یہ ایک سیاسی بیان ہے ، اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔