الخدمت فاونڈیشن نے سیلاب کے دوران 50 ہزار افراد کی جانیں بچائیں عالمی شہرت یافتہ رفاہی تنظیم کے صدر محمد عبدالشکور کا انٹرویو

پاسبان رپورٹ
محمد عبدالشکور کا تعلق ضلع گجرات کے گاوں چنن سے ہے ۔وہ ممتاز ماہر تعلیم اور سماجی کارکن ہیں۔زمانہ طالب علمی میں طلبہ سیاست میں سرگرم رہے ۔ تحریک تحفظ ختم نبوت 1974میں سرگرم حصہ لیا ۔ 2011 میں الخدمت فاونڈیشن پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری بنے ۔نومبر 2014 سے وہ اس عالمی شہرت یافتہ رفاہی تنظیم کے مرکزی صدرکی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔پاکستان میں تباہی پھیلانے والے حالیہ سیلاب کے دوران الخدمت فاونڈیشن نے کیا رفاہی کردار ادا کیا ، اور متاثرین سیلاب کی بحالی کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی ہے ، اس سلسلے میں ان کی ’’ پاسبان ‘‘ سے گفتگو نذرِ قارئین ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الخدمت فاونڈیشن نے حالیہ سیلاب کے دوران ملک بھر میں ریسکیو آپریشن کرکے 50 ہزار افراد کی جانیں بچائیں۔متاثرین کو وبائی امراض سے بچانے کے لیے ہمارے موبائل واٹر فلٹریشن پلانٹ اور موبائل میڈیکل ہسپتال ہمہ وقت مصروف ِ عمل ہیں۔سرکاری تخمینے کے مطابق سیلاب سے پاکستان میں 12 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ۔پانچ ارب روپے کے ساتھ سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی اور تعمیرِ نو کے لیے الخدمت تعمیر وطن پروگرام کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔الخدمت فاونڈیشن پاکستان کے مرکزی صدر محمد عبدالشکور نے یہ بات ’’ پاسبان ‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتائی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ رواں برس پاکستان میں آنے والے سیلاب سے متاثر ہ علاقوں میں الخدمت فاونڈیشن کی رفاہی سرگرمیوں کو تین مراحل میں تقسیم کیا گیا ۔اس سلسلے میں ہماری اولین ترجیح یہ تھی کہ سیلابی پانی میں ڈوبتے لوگوں کو بچایا جائے ۔چنانچہ پہلے مرحلے میں الخدمت ریسکیو آپریشن کیا گیا ۔اندرون سندھ ، بلوچستان ، لسبیلہ ، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان جیسے دور دراز علاقوں میں پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کو موٹر بوٹس ، رسّوں اور ایمبولینسز کے ذریعے نکال کر محفوظ مقامات تک پہنچایا گیا ۔بالکل شروع میں جب طغیانی بہت زوروں پر تھی ، اس وقت ہم نے الخدمت فاونڈیشن کی ایک درجن موٹر بوٹس کے ساتھ ریسکیو آپریشن کا آغاز کیا ۔بعد ازاں کچھ موٹر بوٹس کرائے پر بھی حاصل کیں ۔ یوں مجموعی طور پر 27 موٹر بوٹس اس ہنگامی آپریشن کے دوران استعمال ہو تی رہیں۔اس ریسکیو آپریشن کے دوران قریباً 50 ہزار افراد کی جانیں بچائی گئیں ۔اگرچہ یہ آپریشن اب مکمل ہو چکا ہے لیکن سندھ کے چند اضلاع میں ہماری تین موٹر بوٹس ابھی بھی موبائل میڈیکل یونٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں جو اُن دیہات اور گوٹھوں تک ڈاکٹر او ر ادویات لے کر جاتی ہیں جو ابھی تک پانی میں گھرے ہوئے ہیں لیکن وہاں کے رہائشی اپنے گھر چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔
محمد عبدالشکور کے مطابق ’’ چونکہ سیلابی پانی نے وسیع پیمانے پر تباہی مچائی ۔لوگوں کے مکانات تباہ ہو گئے ۔اس لیے متاثرین کو فوری طور پر عارضی چھت فراہم کرنے کے لیے ملک بھر میں 67 کے لگ بھگ خیمہ بستیاں بسائی گئیں ۔ان بستیوں میں کہیں پچاس ، کہیں سو اور کہیں ڈیڑھ سو خیمے نصب کیے گئے جہاں ہزاروں افراد کو شیلٹر ، پکا پکایا کھانا ، مچھر دانیاں اور ادویات فراہم کی گئیں۔ان بستیوں میں بچوں کے لیے عارضی سکول بھی قائم کیے گئے جہاں انہیں مفت کتابیں اور کھیلوں کا سامان فراہم کیا گیا ۔سیلاب زدہ علاقوں میں ایک اہم مسئلہ پینے کے صاف کی فراہمی کا تھا ۔اس سلسلے میں الخدمت فاونڈیشن نے موبائل واٹر فلٹریشن پلانٹ استعمال کیے ۔یہ پلانٹ ٹرک میں فٹ کیا جاتا ہے جس کے ساتھ دو ٹینک لگائے جاتے ہیں۔اس پلانٹ کے ذریعے 2 ہزار لیٹر فی گھنٹہ پانی فلٹر کیا جاتا ہے ۔گزشتہ ایک ماہ سے ہمارے 27 موبائل واٹر فلٹریشن پلانٹس مختلف علاقوں میں متاثرین سیلاب کو پینے کا صاف پانی فراہم کر رہے ہیں۔جبکہ سندھ ، بلوچستان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے جن علاقوں میں واٹر فلٹر پلانٹ نہیں پہنچ پا رہے ، وہاں صاف پانی کے ٹینکر پہنچائے گئے ہیں تاکہ وبائی امراض سے بچاو کی کوئی سبیل نکل سکے۔برسبیل تذکرہ یہ بتاتا چلوں کہ صاف پانی کی فراہمی کا یہ نیٹ ورک الخدمت فاونڈیشن کے علاوہ کسی اور کے پاس نہیں ہے ۔اسی طرح صحت کے شعبے ہمارے ائیر کنڈیشنڈ موبائل میڈیکل ہسپتال متاثرہ علاقوں میں مسلسل کام کر رہے ہیں۔ایک موبائل ہسپتال سوا کروڑ روپے کی لاگت سے ایک بڑی بس میں تیار کیا جاتا ہے جس میں کئی پورشن ہوتے ہیں جہاں ڈاکٹر ، پیرامیڈیکل سٹاف ، بیڈ ، الٹراساونڈ ، ادویات وغیرہ کی مکمل سہولت موجود ہوتی ہے ۔اس موبائل ہسپتال کے ذریعے ڈاکٹر صاحبان خود چل کر ریلیف کیمپوں اور متاثرہ بستیوں میں مریض کے پاس پہنچتے ہیں۔اس وقت سیلاب زدہ علاقوں میں ہمارے 16 موبائل ہسپتال کام کر رہے ہیں۔مزید دس ہسپتال بنوانے کا آرڈر ہم دے چکے ہیں ۔ مجموعی طور پر ایسے 40 موبائل ہسپتال بنوانے کا منصوبہ ہے ، کیونکہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں ایسے موبائل ہسپتالوں کی سخت ضرورت ہے ۔ریلیف آپریشن مکمل ہونے کے بعد بھی یہ خصوصی ہسپتال وہاں کام کرتے رہیں گے ۔‘‘
’’۔۔۔سیلاب زدگان کی بحالی کے لیے الخدمت فاونڈیشن کیا اقدامات کر رہی ہے ؟‘‘
اس سوال کے جواب میں محمدعبدالشکور نے بتایا کہ سیلاب کے دوران دس ارب روپے کی امدادی سرگرمیوں کے بعد اب ہماری پوری توجہ متاثرین ِ سیلاب کی بحالی پر مرکوز ہے ۔اس مقصد کے لیے ہم نے پانچ ارب روپے سے الخدمت تعمیر وطن پروگرام کا آغاز کر دیا ہے۔اس سلسلے میں اولین ترجیح مکانات کی تعمیر ہے ۔ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم متاثرین کو مکانات بنا کر نہیں دیں گے بلکہ مکانات کی تعمیر میں ان کی مدد کریں گے ۔اس کا طریقہ یہ ہو گا کہ ہم متاثرہ شخص کو صرف تعمیر اتی سامان خرید کر دیں گے تاکہ وہ اپنا مکان اپنی مرضی اور پسند کے مطابق خود تعمیر کرائے ۔دراصل سابقہ تجربات میں یہ بات سامنے آئی کہ تعمیراتی کمپنیوں کے ذریعے اگر مکانات بنوائے جائیں تو کئی قسم کے مسائل اور شکوے شکایتیں جنم لیتی ہیں۔فی الحال پہلے مرحلے میں پانچ ہزار مکانات کی تعمیر ہمارا ہدف ہے ۔اس تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے ۔علاوہ ازیں ان علاقوں میں پہلے سے موجود یتیم بچے بھی ہمارے خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔اس سلسلے میں الخدمت فاونڈیشن اپنے کفالت پروگرام کے تحت پانچ سے آٹھ سال تک کے بچوں کی تعلیم و تربیت اپنے ذمے لے گی ۔امکان ہے کہ پہلے مرحلے میں متاثرہ علاقوں سے پانچ سے سات ہزار بچے اس پروگرام میں شامل کیے جائیں گے جن کی کفالت کا بندوبست بھی ان کے قریبی علاقوں میں ہی کیا جائے گا ۔واضح رہے کہ اس وقت ملک بھر میں الخدمت کفالت پروگرام سے قریباً 20 ہزار بچے مستفید ہو رہے ہیں۔علاوہ ازیں جن متاثرہ علاقوں میں زرعی اراضی قابل کاشت ہے ، وہاں چھوٹے درجے کے کاشت کار کو بیج ، کھاد اور زرعی ادویات فراہم کرکے گندم کی بوائی میں بھی مدد دی جا ئے گی ۔اس کے دو فائدے ہوں گے ۔پہلا یہ کہ وہ کاشت کار چند ماہ کے اندر اپنی غذائی ضروریات خود پوری کرنے کے قابل ہو جائے گا ، اور دوسرا یہ کہ ملک میں گندم کی ممکنہ قلت پر بھی قابو پایا جا سکے گا ۔اسی بحالی آپریشن کے تحت الخدمت فاونڈیشن سیلاب زدہ علاقوں میں دو سو مساجد ، دو سو دینی مدارس اور دو سو سکولوں کی بحالی کا کام بھی کر رہی ہے ۔
الخدمت فاونڈیشن کے مرکزی صدر نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے قوم کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق سیلاب سے ملک بھر میں مجموعی طور پر 12 ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے ۔سیلاب زدہ علاقوں میں ریسکیو کا مرحلہ تو ختم ہو چکا ، ریلیف کے کام بھی چند ہفتوں میں سمٹنا شروع ہو جائیں گے ۔اب بحالی کا مرحلہ شروع ہونے والا ہے جس میں الخدمت فاونڈیشن سمیت تمام ملکی رفاہی تنظیمیں حصہ لیں گی ۔لیکن حقیقت میں یہ اتنا بڑا کام ہے جو تنہا رفاہی تنظیموں کے بس کا نہیں ، کیونکہ ملک کے کثیر حصے میں انفراسٹرکچر مکمل تباہ ہو چکا ہے ۔ان نامساعد حالات میں لاکھوں برباد گھر تعمیر ہونے ہیں،لاکھوں خالی ہاتھ چھوٹے کاشت کاروں کو آئندہ فصل کے لیے بیج ، کھاد او ادویات درکار ہیں، ہزاروں مساجد ، دینی مدارس ، سکولوں اور ہسپتالوں کو دوبارہ قابل استعمال بنانے کی ضرورت ہے ۔دوسری طرف اب موسم سرما کا آغاز ہو چکا ہے ۔اس وقت اصل امتحان ان لوگوں کا ہے جنہیں خدا نے اس آفت سے محفوظ رکھا ۔سیلابی پانی تو اُتر گیا لیکن آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی ۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق آلودہ پانی ، مچھروں کی بہتات اور غذائی قلت جیسے عوامل کے باعث اب پاکستان میں بیماریوں کا بہت بڑا سیلاب آنے والا ہے ۔ان حالات میں پوری قوم کی ذمہ داری ہے کہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی بحالی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے، اور پوری دنیا کو یہ پیغام دے کہ ہم اپنے مسائل خود حل کرنے کی استعداد رکھتے ہیں ،اوراپنے بھائیوں کی بحالی کا کام خود کر سکتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی آبادی 22 کروڑ سے زائدہے جن میں سے سوا تین کروڑ لوگ سیلاب سے متاثر ہو ئے ہیں۔اس حساب سے سات آدمیوں نے ایک آدمی سنبھالنا ہے جو کہ مشکل کام نہیں ہے ۔
آخر میں محمد عبدالشکور نے قومی ذرائع ابلاغ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ،’’سیلاب کی جس بڑی آفت سے ملک نبردآزما ہے ، اس کی اطلاعات پہنچانے ، احساس اجاگر کرنے ، مصیبت زدگان کو حوصلہ دینے ، رفاہی تنظیموں کو متعارف کرانے اور مخیر حضرات کو متحرک کرنے میں آپ لوگوں نے جو کردار ادا کیا ،اس پر میں اور پوری قوم آپ کی شکرگزار ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں