پچھلے سال ہمارے کالج کا پہلا بیچ رخصت ہوا ۔ اکثر کسی نہ کسی سلسلے میں کالج آنے والی سابقہ طالبات سے سلام دعا چلتی رہتی ہے ۔ مختلف خصوصیات کی بنا پر کچھ بچے یاد رہ جاتے ہیں ۔ کچھ اپنے ڈراموں کے باعث ، کچھ اپنی نالائقی کے سبب اور کچھ اپنے تابع داری کی وجہ سے (لائق بچوں کا نمبر یاد رہ جانے والوں میں بہت پیچھے ہے🙂)۔
آج صبح بینش دفتر آئی۔ وہی ایک سانس میں دس باتیں کہہ جانے والی عادت لیے ؛ آنکھیں کاجل اور خوابوں سے بھری ہوئیں ، سراپا محبت اور احترام لیکن قدرے جنونی لڑکی۔
“آپ نے مجھے پہچانا؟ میں بینش!”
“کیسی ہیں بینش؟ کیا بنا آپ کے خوابوں کا؟ آپ پولیس میں جانا چاہتی تھیں نا ؟”
“میں نے اپنے خواب بدل لیے۔ میں ٹوورزم پڑھوں گی ۔ یو کے کی ایک بہت اچھی یونیورسٹی میں میرا ایڈمیشن ہو گیا ہے۔ابھی ایئرپورٹ جارہی ہوں ، گھر والوں سے ضد کی کہ آپ سے مل کرجاؤں گی۔ اس سارے پروسیس کے دوران میں جب کبھی سوچتی کہ میں گاؤں کی ایک سادہ سی لڑکی ہوں ،میں کہاں باہر جا پاؤں گی ؛تو مجھے آپ یاد آجاتیں۔ آپ کہا کرتی تھیں تم لڑکیوں کو اپنی ویلیو کا اندازہ ہی نہیں ہے تم آسمان چھو سکتی ہو literally آسمان چھو سکتی ہو۔”
“اچھا اب بس ! سانس لو۔ پانی پیو گی ؟”
“نہیں بھائی باہر انتظار کر رہا ہے،بس دو منٹ اور آپ سے بات کروں گی ۔ میں آپ کے ساتھ ایک تصویر بنا سکتی ہوں؟ اور وہ تصویر آپ فیس بک پر لگائیں گی پلیز؟”
“فیس بک پر کیوں؟”
” کیونکہ میں آپ کے کالج کی پہلی سٹوڈنٹ ہوں جو باہر پڑھنے جا رہی ہے۔ اور میری خواہش ہے کہ آپ کی وہ پوسٹ میرے کالج کی ساری بچیاں دیکھیں ۔
اچھا مجھے کوئی نصیحت کریں ۔”
“نصیحت۔۔۔۔۔۔۔
بس جاؤ اور چھو لو آسمان !”
❤❤❤