قرآن مجید کو نذرِ آتش کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں

’تاریخ شاہد ہے کہ استشراقی فکر نے اول روز سے ہی قرآن مجید اور ذاتِ رسالتِ مآب ؐ کو ( معاذ اللہ ) ہدفِ تنقید بنا رکھا ہے ۔ نئے اور پُرانے مستشرقین نے ان دونوں حوالوں سے بے شمار اعتراضات پر مبنی کتابیں لکھیں ، جن کا ہر دور میں علمائے کرام نے مدلل جواب دیا ، اور علمی میدان میں ثابت کیا کہ قرآن مجید وہ واحد صحیفہ آسمانی ہے جو کسی بھی طرح کی تحریف سے پاک ہے ۔ امر واقعہ یہ ہے کہ 2010 سے یورپ میں عوامی سطح پر قرآن مجید کی بے حرمتی کی جو باقاعدہ تحریک چل رہی ہے ، اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ علمی میدان میں استشراقی فکر شکست کھا چکی ہے ۔چنانچہ اب مسلمانوں کی دل آزاری کے لیے عوامی سطح پر کلام الہیٰ کی بے حرمتی اور توہین کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے جو امنِ عالم کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے‘ ۔

یہ بات اسلامی تاریخ کے ممتازا سکالر پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق نے پاسبان سے خصوصی گفتگوکرتے ہوئے کہی ۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ،۔۔

۔’ گزشتہ دنوں سویڈن ، ہالینڈ اور ڈنمارک میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے جو افسوس ناک واقعات وقوع پذیر ہوئے ، اگرچہ ان کا فوری بنیادی مقصد تو یہی دکھائی دیتا ہے کہ اولاً مسلمانوں کی دل آزاری کی جائے ، اور دوسرا یہ کہ اس طرح کی حرکتیں کرکے مسلمانوں کو اشتعال دلایا جائے ، اور جب ان کی طرف سے کوئی سخت ردِ عمل سامنے آئے تو پھر دنیا بھر میں ان کی شدت پسندی اور انتہا پسندی کا ڈھنڈورا پیٹا جائے ۔ لیکن میرے خیال میں اس کی ایک اور وجہ بھی ہے ۔ دراصل مغربی معاشرے میں اسلام پھیل رہا ہے ۔ جو لوگ غیر جانب داری اور کھلے دل سے قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں ، انھیں ہدایت کا نور ضرور ملتا ہے ۔ اس بات سے مغرب کے اسلام دشمن حلقے پریشان ہیں ۔ چنانچہ اب انھوں نے قرآن مجید کے خلاف وہی رویہ اختیار کر رکھا ہے جو نزول ِ قرآن کے فوری بعد مشرکینِ مکہ نے اپنایا تھا ، جس کا ذکر خود قرآن مجید میں موجود ہے کہ جب نبی کریم ؐ قرآن مجید کی تلاوت فرمایا کرتے تو مشرکین ایک دوسرے سے کہتے کہ ان کا قرآن نہ سنو ، بلکہ خوب شوروغل مچاو تاکہ قرآن کی سحر انگیزی اور اثر آفرینی ہم پر اثر نہ کر سکے ۔قرآن کی بے حرمتی کرنے والے یہ بات بھول رہے ہیں کہ جو بھی قرآن کا مطالعہ کرے گا ، وہ اس سے متاثر ضرور ہو گا ۔ توہین آمیز حرکتیں کرکے قرآن کو ختم نہیں کیا جا سکتا ، کیوں کہ اس کی حفاظت کا ذمہ خود اللہ نے لے رکھا ہے ‘۔

۔’سویڈن میں قرآن مجید کو نذرِ آتش کرنے کی وجہ کیا بنی ؟‘۔اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق نے بتایا ، ۔

۔’ بنیادی طور پر تو یہ سفارتی مسئلہ تھا ۔سویڈن اگر اسے سفارتی سطح پر ہی حل کرتا تو زیادہ بہتر ہوتا ۔ دراصل سویڈن نیٹو کا رکن بننا چاہتا ہے ۔نیٹو کے دستور کے مطابق اگر کوئی نیا ملک ان کی تنظیم کی رکنیت حاصل کرنا چاہے تو اس کے لیے تنظیم کے تمام ارکان ممالک کی رضامندی حاصل کرنی ضروری ہے ۔ ترکی کو سویڈن سے یہ شکایت ہے کہ وہ کرد باغیوں کی پشت پناہی کرتا ہے ۔ اس وجہ سے ترکی نے سویڈن کو نیٹو کا رکن بنانے کی مخالفت کی ۔اب قرینِ انصاف تو یہ تھا کہ سویڈن اس معاملے کو سفارتی سطح پر حل کرتا ، لیکن انھوں نے ترکی کے اس اقدام کا جواب قرآن مجید کی بے حرمتی کرکے دیا ، جس سے نہ صرف ترک اور عرب مسلمانوں بلکہ پورے عالم اسلام کے جذبات مجروح ہوئے ۔ حالانکہ قرآن مجید نے نہ صرف سابقہ آسمانی کتابوں اور انبیا و رسل کی تکریم و تصدیق کی ، بلکہ وہ دستورِ انسانیت اور ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے ۔اس لیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ قرآن مجید کو نذرِ آتش کرنے والے درحقیقت انسانیت کے دشمن ہیں ۔ ان کا یہ قبیح فعل اصل شدت پسند ی اور انتہا پسندی ہے ‘۔

۔’ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے مسلم امہ کو کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے ؟‘۔

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق نے کہا کہ ، ۔

۔’ تمام مسلمان ممالک کو باہم یک جان ہو کر مختلف عالمی فورمز پر ان توہین آمیز حرکتوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہئے اور سفارتی سطح پر اس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کرنا چاہئے ۔ جب کہ عام مسلمانوں کو قرآن مجید کی تعلیمات کو عملی طور پر اپنانا چاہئے ۔ ان کا قرآن مجید سے تعلق اس قدر مضبوط ہو کہ شاعر مشرق علیہ الرحمہ کے بقول بظا ہر تو وہ قاری نظر آئیں ، لیکن حقیقت میں قرآن ہوں۔ علاوہ ازیں احترام ِ انسانیت کے سلسلے میں قرآن مجید کی تعلیمات کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی بھی ضرورت ہے ۔اس کے لیے کانفرنسز اور سیمی نارز کا انعقاد ہونا چاہئے ‘۔

یاد رہے کہ ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق گزشتہ بیس برسوں سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں ۔ آج کل جامعہ کراچی میں صدر شعبہ اسلامی تاریخ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ علاوہ ازیں وہ معروف تحقیقی مجلّے شش ماہی ’ التفسیر ‘ کراچی کے مدیر بھی ہیں ۔اب تک ان کی پندرہ کتابیں زیور ِ طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں