زینب صدیق :چیمپئن لڑکی بہت سے لوگوں کے لیے رول ماڈل تحریر:ثوبیہ اسلام

یہاں میں آپ سب کو ایک ایسی شخصیت سے ملوانے جا رہی ہوں، جو دراصل پاکستان کا فخر ہے۔ ایک بیٹی، بہن، بیوی، بہو اور ماں جس نے عورت کے ہر کردار کو نہ صرف خوبصورتی سے نبھایا، بلکہ اس اپنے خاندان، معاشرے اور اپنے ملک کے لیے فخر کا باعث بنی۔
حقیقی معنوں میں وہ صرف ایک ماں کی بیٹی نہیں، بلکہ ایک قوم کی بیٹی ہے۔
تو اس بلند حوصلے والی قوم کی بیٹی سے ملیں جن کا نام زینب صدیق ہے۔
زینب صدیق کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ والد اور والدہ دونوں پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں۔
گاؤں کی رہائشی اس قابلِ فخر شہزادی نے شادی کے بندھن میں بندھنے کے 8 سال بعد اور دو ننھے بچوں کی ماں ہونے کے باوجود تعلیم کا سفر جاری رکھا۔
اور مضبوطی کے ساتھ اپنے خوابوں کی تکمیل میں جتی رہیں۔
ان کی اس کامیابی کا یہ سفر آسان نہیں تھا۔
کیوں کہ ان کو خاندانی رسم و رواج اور اپنی تعلیم کے تقاضوں سے نمٹنا تھا۔
یہ ان کے لیے ایک جنگ تھی جس میں سرخرو ہونے کے لیے انہوں نے جدوجہد کی، اتار چڑھاؤ تو ہر کسی کی زندگی میں آتے ہیں مگر اس حوالے سے بھی زینب صدیق خوش قسمت رہیں کہ سسرال والوں کے تعاون سے ان کو کافی حد تک سپورٹ ملی، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ زینب صدیق کی اس کامیابی میں ان کے سسرالی مکینوں کا خصوصی کردار رہا ہے۔
ان کے شوہر اور سسرال والوں نے ان کے عزم کو تسلیم کیا اور زینب کے اس خواب کی تکمیل میں ان کا ساتھ دیا، جس وجہ سے زینب ثابت قدم رہیں، اور بالآخر اپنے خواب کی تکمیل کو یقینی بنا لیا۔
شریکِ حیات تو ہر سفر پر قدم سے قدم ملا کر چلتا ہے مگر
زیب صدیق کے سُسر کا کردار بھی سب سے نمایاں رہا، یہ خواب زینب صدیق کا تھا لیکن ان کے سُسرنے اس خواب کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے راہ ہموار کی، تاہم ان کے شوہر نے ان کی ہر ممکن مدد کرنے کا تہیہ کر رکھا تھا، اور انہوں نے اسے اپنی تعلیم کو آگے بڑھانے کی ترغیب دی اور زینب کو باقاعدہ طالب علم کی طرح داخلہ دلوایا۔
اپنے شوہر کے تعاون سے زینب نے مقامی اسکول اور پھر کالج میں کلاسز لینا شروع کر دیں۔ ان کے شوہر اور سسرال والے ان کی حوصلہ افزائی کے لیےہمہ وقت موجود رہے، کامیابی کی منزل تک پہنچنے کے لیے ہر ممکن تعاون فراہم کرتے رہے۔
حقیقی معنوں میں وہ ان کے لیے سپورٹ سسٹم بنے رہے۔ جو کہ ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔
بچوں کی پیدائش سے لے کر گھر کی دیکھ بھال تک ان کے شریک حیات نے جو کردار ادا کیے ہیں، اور اب بھی ادا کر رہے ہیں اس کے لیے وہ بے حد داد کے مستحق ہیں۔
ایسا جیون ساتھی ملنا یقیناً بڑی سعادت اور خوش قسمتی ہے۔ اللہ ہر لڑکی کو ایسا مخلص جیون ساتھی عطا فرمائے۔
زینب صدیق نے جس لگن کے ساتھ تعلیمی سفر جاری رکھا، ان کی محنت اسی جوش و جذبے کے ساتھ رنگ لائی۔ وہ اچھے درجات برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں، اور بالآخر ان کو چار سالہ یونیورسٹی میں منتقل کر دیا۔
8 سال کی محنت، قربانی اور لگن کے بعد زینب نے پورے گجرات میں ٹاپ پوزیشن حاصل کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ یہ ان کے اور ان کے خاندان کے لیے ایک قابل فخر لمحہ تھا، اور سب نے مل کر ان کی کامیابی کا خوب جشن منایا۔
اس شاندار کامیابی پر پاکستان کے بڑے بڑے میڈیا گروپس نے اس موٹیویشن سٹوری کو رپورٹ کیا اندرون و بیرون ملک سے لاکھوں لوگوں نے مبارکباد پیش کی، اور ہزاروں فیملیزنے موٹیوشن حاصل کی۔
ابھی زینب پاکستان میں سائیکالوجی کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سائیکالوجی، قائد اعظم یونیورسٹی سے بی ایس سائیکالوجی کررہی ہیں۔
بچے بھی اسلام آباد میں ان کے ساتھ ہیں۔
ان تعلیم بھی اسلام آباد میں ساتھ ساتھ جاری ہے چیلنج در چیلنج کے باوجود زینب نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ بخوبی جانتی تھیں کہ ڈگری حاصل کرنا نہ صرف ایک ذاتی کامیابی ہوگی، بلکہ ان کے خاندان، معاشرے اور ان کے ملک کی بھی کامیابی ہے۔
اور ان لڑکیوں کے لیے مثال ہیں جو محض گھر داری تک محدود رہ گئیں۔
وہ ان کو دکھانا چاہتی تھیں کہ محنت اور عزم سے کچھ بھی ممکن ہے۔
زینب کی کہانی عزم کی طاقت اور خاندان کی حمایت کی اہمیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اپنے شوہر اور سسرال والوں کی مدد سے وہ اپنی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور اپنے خوابوں کو حاصل کرنے اور چیمپئن بننے میں کامیاب ہوئیں۔ یہاں تک کہ ان کے سسرال والوں نے بھی بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے ایک قابل ذکر مثال قائم کی۔ ان سب نے ثابت کیا کہ شادی اور زچگی کی زمہ داریوں کے باوجود، لڑکی کے لیے اپنے خوابوں کی تعبیر، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا اور کامیابی کا سہرا سجانا اب بھی ممکن ہے۔
زینب کے کردار نے مجھے بہت حوصلہ دیا، اور یہی ایک وجہ ہے کہ آج میں یہ ان کے لیے لکھ رہی ہوں کیونکہ میں چاہتی ہوں کہ ہر لڑکی کو حوصلہ افزائی کے لیے ان کی کہانی سے آگاہی حاصل ہونی چاہیے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ باحجاب ہوکر اپنا ہر کام سر انجام دیتی رہی ہیں۔
اگر کوئی لڑکی حجاب کو رکاوٹ سمجھتی ہے تو اس حوالے سے بھی زینب ایک روشن مثال ہیں۔
مخلصانہ دعا ہے کہ زینب صدیق مزید آگے بڑھیں
ان کے باقی خواب بھی پایا تکمیل تک پہنچیں
ان کی ازدواجی زندگی اسی طرح کامیاب اور خوشحال رہے
سسرال والوں کے دل تاحیات زینب کی محبت سے مزین رہیں۔
اس آرٹیکل کا مقصد ان لڑکیوں میں آگاہی پھیلانا ہے جو بہت کچھ کرنے کے باوجود گھر کے کاموں تک ہی محدود ہیں۔ میرا ان لڑکیوں کے نام یہ پیغام ہے!
اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود نہ ہونے دیں، جو کچھ، جہاں تک ممکن ہو سکے کریں۔ آپ جب تک خود قدم نہیں اٹھائیں گی، تب تک کوئی آپ کی مدد نہیں کر سکتا۔ اپنے خوابوں کو مرجھانے نہ ہونے دیں، ان کی آبیاری کرنے کے لیے اقدامات کریں تاکہ ان کی تکمیل ممکن ہوسکے۔
جو عورت کو کمزور سمجھتے ہیں وہ غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
عورت تو ایک مضبوط چٹان کی مانند ہے جو چاہے تو ناکامی کی پختہ ترین زنجیروں کو بھی توڑ سکتی ہے۔
اور صرف ایکشن لینا ہی کافی نہیں، اس پر عمل پیرا ہونا بھی لازم ہے۔
شاعرِ مشرق علامہ اقبال کا ایک شعر ہے؛

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

اپنا تبصرہ بھیجیں