وقت اور حالات کا سامنا کرنے کے لیے ہمت اور حوصلہ چاہیے ہوتا ہے جو کہ ہمارے مستقبل کے معماروں کے لیے نہایت ہی ضروری ہے، والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو صبر اور حوصلے سے کام لینا سیکھائیں، ان کی تربیت پر خاص توجہ دیں، کیوں کہ ہمارے بچے مستقبل کے معمار ہیں۔ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی و تعمیر میں ہمارے بچوں کی تعلیم و تربیت کا اہم کردار ہوتا ہے۔ آج اگر اپنے بچوں کو کامیابی کے راستوں پر چلنا سیکھائیں گے تب ہی وہ کامیاب معمار کہلا پائیں گے۔ لیکن نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ والدین بچوں کی تربیت میں بہت سستی برت رہے ہیں۔ مشکل کام بچے پیدا کرنا نہیں ہوتا بلکہ بچوں کی تربیت کرنے کا ہوتا ہے۔ یہی اصل امتحان ہے
بچوں کی ہر کامیابی و ناکامی کے پیچھے ان کے والدین کا ہاتھ ہوتا ہے۔ یہ والدین نے طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو کس راستے پر لے کر جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کا مستقبل روشن کرنا ہے یا تاریک کرنا ہے۔ بچوں سے جب بھی کوتاہی ہوتی ہے ان کے والدین کو ہی موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ والدین جو کچھ کریں گے ان کے بچے بھی وہی کریں گے۔ اکیسویں صدی کے بچوں میں نہایت ہی بگاڑ پیدا کیا جا رہا ہے۔
بچہ سکول نہیں جا رہا تو ایک ہزار کا نوٹ اس کے ہاتھوں میں تھما کر اسے سکول بھیجا جاتا ہے، بچے جب دودھ نہیں پیتے، کھانا نہیں کھاتے، والدین کی من پسند کا کام نہیں کرتے تو ان کو کارٹونز کا لالچ دیا جاتا ہے کہ فلاں کام کرو گے تو تمہیں تمہاری پسند کے کارٹون لگا کر دیں گے۔ اور تو اور ایک ماہ کے روتے ہوئے بچے کو موبائل کے سہارے چپ کروایا جاتا ہے۔
اور جن ہاتھوں میں کتابیں ہونی چاہئیں ان ہاتھوں میں وقت سے پہلے ہی موبائل تھما دیے گئے ہیں،
موجود حالات کے پیش نظر والدین اپنے پاؤں پر ہی خود ہی کلہاڑی مار رہے ہیں، وہ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے ہیں، اور بچے کا مستقبل تاریک کر رہے ہیں۔
والدین کے نام یہ اہم پیغام ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیں، وہ چاہیں تو اپنے ملک کی ترقی کے لیے کامیاب معمار تخلیق کر سکتے ہیں۔ ان کے بچے ان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ نہایت ہی اہم پیغام ہے کہ والدین اور اساتذہ کرام کی اپنے نوجوان بچوں کو کامیاب لوگوں کی داستانیں سنائیں، تاریخی واقعات سنائیں،
مشکل حالات سے لڑنا سیکھائیں، کامیابی حاصل کرنے کے طریقے سیکھائیں۔ تلخ حالات میں صبر کا مظاہرہ کرنا سیکھائیں، کم وسائل میں قناعت کرنا سیکھائیں،
کس کے ساتھ کس انداز کے ساتھ پیش آنا ہے اس کے لیے اخلاقیات سیکھائیں، ایک مضبوط کردار کا انسان حالات کو بدل دیتا ہے، ناکامی کو شکست دے کر کامیابی کی راہیں ہموار کر سکتا ہے۔ جب انسان کے ارادے پختہ ہوتے ہیں تب کھٹن راستے بھی آسان لگتے ہیں۔ کسی بھی انسان کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا، یہ سوچ ہی تو ناکامیوں کی زنجیروں میں جکڑ دیتی ہے۔ اور ناکامیوں کو شکست دینے کے لیے کامیابی کا یقین ہونا ضروری ہے۔ سب سے پہلے سوچ کو بدلیں گے تبھی حالات کو بدل پائیں گے جب یہ کہیں گے کہ ہاں یہ میں کر سکتا ہوں، اور میں کر کے دیکھاؤں گا تب ناکامی بھی منہ چڑھانے لگتی ہے اور کامیابی کے راستوں پر چلنا آسان لگنے لگتا ہے۔
منزل تک پہنچنے کے لیے دشواریوں کا سامنا تو کرنا پڑتا ہے۔ کامیابی بھی اسی کا مقدر بنتی ہے جس کی سوچ وسیع ہوتی ہے۔ مشکل سے مشکل ترین وقت بھی آئے تب بھی ہمت نہ ہاریں، اور مشکلات میں وسائل کم پڑنے لگیں تو یہ مت سوچیں کہ فلاں کام میری اوقات کے مطابق نہیں ہے۔
میں نے ان پڑھ لوگوں کو پڑھے لکھے اور ذہین ترین لوگوں کی لسٹ میں سر فہرست دیکھا ہے۔ ان کی کامیابی کا راز عاجزی، محنت اور خلوص نیت ہے۔
عاجزی یہ ہے کہ انہوں نے تکبر نہیں کیا کسی کام کو حقیر نہیں سمجھا رزق کی تلاش میں انھیں کسی کا کچرا بھی اٹھانا پڑا تو انہوں نے کچرے کے ڈھیر اٹھانے میں بھی عار محسوس نہ کی، کسی کے جوتے پالش کرنے پڑے تو بھی بلا جھجک پالش کر دیے۔
وہ نوکری کی تلاش میں نہیں کام کی تلاش میں نکلتے رہے، وہ مسلسل محنت کرتے رہے، اخلاص سے کام کرتے رہے، دھوکے اور فریب کی بجائے ایمانداری ہمیشہ ان کا شیوہ رہی، وہ زیادہ کی تمنا میں مبتلا نہیں ہوئے، انہوں نے خواہشات پوری نہیں کی، بلکہ ضروریات پوری کیں۔ جو انسان خواہشات کا پجاری بن جاتا ہے پھر اس کی ضروریات بھی کبھی پوری نہیں ہوتیں۔ کیوں کہ خواہشات کو پیالہ کبھی نہیں بھرتا۔
مستقل کے معماروں کو چاہیے کہ وہ جاب ڈھونڈنے پر توجہ نہ دیں بلکہ کام تلاش کریں، کام کسی بھی طرز کو ہو اس کو کرنے میں عار محسوس نہ کریں۔ جو انسان جاب تلاش کرنے کی بجائے کام کو اہمیت دیتا ہے وہ کبھی بھی ناکام نہیں ہوتا۔ لیکن افسوس نوجوانوں کی اکثریت جاب تلاش کرتے کرتے خواری کے کنویں میں گرتی جا رہی ہے۔ من چاہی جاب کے منتظر نوجوان چھوٹے موٹے کام کرنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ وہ فارغ رہنا تو پسند کر لیتے ہیں لیکن کم تنخواہ والے کاموں کو ٹھوکر مار دیتے ہیں۔ مستقبل کے معماروں کو چاہیے کہ وہ وقت کی قدر
کریں۔ من چاہی جاب کی خواہش میں فارغ بیٹھے رہیں گے تو وہ کامیابی کا منہ کبھی نہیں دیکھ پائیں گے۔ ایسے میں وہ اپنا قیمتی وقت بھی برباد کرتے رہیں گے، اور ان کی صلاحیتیں بھی زنگ آلود ہوتی رہیں گی۔ ان سے ان کے بڑوں اور قوم کی بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ وہ ان کی امیدوں کو دھندلا نہ ہونے دیں۔
ان کو چاہیے کہ کسی بھی قیمتی موقع کو خواہشات کی بھینٹ نہ چڑھائیں تب ہی وہ مستقل کے بہترین معمار بن پائیں گے۔