عورت وہ خوبصورت ہستی ہے جس نے اس دنیا کی ویرانیوں کو رونقیں بخشیں، جس کے وجود نے خزاں کو بہار میں بدل دیا، عورت جس روپ میں بھی ہے اس کا وجود نعمتِ خدا ہے، عورت خدا کی خوبصورت تخلیق ہے، عورت نہ ہو تو مرد کی زندگی بنجر زمین کی مانند ہے، مرد کو عورت پر حکمرانی کرنے کا حق ہے، لیکن مرد کو بھی اپنی حدود کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس کے جذبات و احساسات کا بھی احترام کرنا چاہیے، مرد سمجھتا ہے کہ وہ کماتا ہے، زمانے بھر کی خاک چھانتا ہے، دھوپ کی تپش کو برداشت کرتا ہے۔ لیکن وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ عورت بھی تو بہت سی قربانیاں دیتی ہے۔ وہ اولاد کی پرورش کرتی ہے۔ جو کہ بہت بڑی زمہ داری ہے، وہ گھر داری کرتی ہے، بہت سی مشکلات سے گزرتی ہے۔ اگر مرد سورج کی تپش کو برداشت کرتا ہے تو عورت بھی تو چولہے کی تپش سہتی ہے۔ بہت سی تکلیفوں اور تلخیوں سے گزرتی ہے۔ مرد کہتا ہے میں صرف پیسہ کماؤں، لیکن عورت بچے بھی پیدا کرے، ان کی پرورش بھی کرے، گھر داری بھی سنبھالے، اس کے ماں، باپ، بہن، بھائی کی بھی دیکھ بھال کرے۔ آخر عورت بھی تو انسان ہے۔ وہ کوئی مشین تو نہیں جو تھکتی نہیں۔اس کے جذبات و احساسات بھی ہوتے ہیں۔ مرد اگر عورت کو وہ مقام دے جو اس کا بنیادی حق ہے تو وہ “میرا جسم میری مرضی کیوں کہے” لیکن اگر مرد کو سبھی حقوق ادا کرنے کے باوجود بھی یہ جملہ سننے کو ملتا ہے، تو یہ عورت کی بدقسمتی ہے۔ میں صرف مرد کو موردِالزام نہیں ٹھہرا سکتی، میری نظر میں دونوں کے جذبات و احساسات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں۔
اور جو عورتیں گھرداری کو بوجھ سمجھتی ہیں، اور مرد کی برابری کرنے کی چاہ رکھتی ہیں، تو وہ غلطی پر ہیں۔ اگر عورت کو ایک محافظ ملا ہے، ایک مضبوط پناہ گاہ ملی ہوئی ہے، تو عورت کو شکر گزار ہونا چاہیے۔ مرد کا احسان مند ہونا چاہیے۔ جذباتی پن سے کبھی بھی گھر بسا نہیں کرتے، باہمی رضا مندی، محبت، احساس، خلوص اور اعتماد سے گھر بنتے ہیں۔
میرا یہ پیغام ہر مرد اور عورت کے لیے ہے؛
نہ عورت مرد کی برابری کرسکتی ہے، اور نہ ہی مرد عورت کی برابری کرسکتا ہے۔ دونوں کو اپنا اپنا مقام پہچاننے کی اشد ضرورت ہے۔