سیکھنے کاعمل آخری سانس تک جاری رہتاہے اس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں،:سنیئر صحافی خالد عظیم کا یونیورسٹی آف گجرات میں میڈیا ورکشاپ کے شرکاء سے خطاب

گجرات(مدثراقبال سے)سیکھنے کاعمل آخری سانس تک جاری رہتاہے اس سے نظریں نہیں چرائی جاسکتیں،جہالت کی رپورٹنگ کی بجائے اپنے علم وشعورمیں اضافہ کرتے ہوئے معاشرتی مسائل اجاگرکریں،گزشتہ ادوارمیں اخبارات کی اشاعت میں کاتب کاکلیدی رول تھامگراب افرادی قوت کی بجائے جدید ٹیکنالوجی آچکی ہے،ایڈیٹنگ کیلئے سافٹ ویئرآگیاہے جوخود ہی خبرکی سرخیاں نکالتاہے،صحافت کی مرکزیت ٹیلی ویژن اورسوشل میڈیا کی جانب منتقل ہوچکی ہے مگرپرنٹ میڈیا کی اہمیت سے انکارنہیں کیاجاسکتا،اخبارات کے آن لائن ایڈیشن کے ملین میں ویورزہیں،خبربننے کی بجائے لوگوں کی توقعات پرپورااترنے کی کوشش کریں جس کیلئے حالات سے باخبررہناضروری ہے،سوشل میڈیا آزاد صحافت ضرور مگربعض اوقات بے لگام ہوجاتاہے، ہمیشہ یکسو ہوکر کام کریں تاکہ لوگ آپ کی قدرکریں،تاریخ،جغرافیہ اورادب سے نابلد شخص نہ تو اچھاسیاستدان بن سکتاہے اورنہ ہی صحافی ،کتابوں سے دوستی کریں،روٹین سے ہٹ کردی گئی خبرہی آپ کاقیمتی اثاثہ ہے،ان خیالات کااظہار معروف تجزیہ نگار،سما ءٹی وی اسلام آباد کے بیورو چیف خالد عظیم نے یونیورسٹی آف گجرات میں مقامی صحافیوں کیلئے منعقدہ تربیتی ورکشاپ ”جدید صحافت کے رجحانات وامکانات“ میں کیا،خالد عظیم کاکہناتھاکہ گجرات بڑی مردم خیز دھرتی ہے جہاںسے نامورشخصیات نے جنم لیا ،نامورصحافی حبیب جلالپورجٹاں، مجید لاہوری،معین الدین سیداں کے سید شبیرشاہ جوراولپنڈی پریس کلب کے بانی وپہلے صدرتھے ،بٹالوی صاحب کاتعلق بھی گجرات سے ہی تھا ،فخرہے کہ میرا تعلق بھی گجرات سے ہی ہے کھاریاںسے بطورنمائندہ جنگ صحافت کاآغاز کیا شوق وکالت کاتھامگر کچہری کاماحول میرے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتاتھا راجہ ریاض احمد راسخ کواپناجانشین بناکراسلام آباد سے میگزین شروع کیا نوائے وقت میں بھی کام کیا روزنامہ امت کیساتھ ساڑھے گیارہ سال منسلک رہا سماءکیساتھ نو سال سے کام کررہاہوں گجرات یونیورسٹی ،زمیندارکالج،سرسید کالج ہمارا فخرہیں،1963ءمیں سنجیدہ موضوعات کامطالعہ شروع کیا ہمیشہ ان چیزوں کاعلم حاصل کریں جودوسروں کے علم میں نہ ہو جہالت کی رپورٹنگ کی بجائے تحقیق کریں اس کیلئے مطالعہ اہمیت رکھتاہے،علم ہمیشہ کتاب سے حاصل ہوتاہے معلومات تو ہم گوگل ،انٹرنیٹ ودیگرذرائع سے بھی حاصل کرسکتے ہیں،اخبارات میں چھپنے والے مضامین کامطالعہ کریں پھراپناجائزہ لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں نمایاں فرق محسوس کریں گے،بطورورکنگ جرنلسٹ ایم اے جرنلزم کیا جیسے کاروباری اداروں میں سیٹھ اپنی مرضی کے مطابق افراد رکھتاہے ایسے ہی صحافت میں نئے آنیوالوں کومحدود کیاجارہاہے سوشل میڈیا کاسکوپ ضرور ہے مگراخبارات کی اہمیت سے کسی طورپربھی انکارممکن نہیں،اخبارات والوں نے ساتھ میں چینل بھی شروع کرلیے ہیں دنیا بھرمیں آن لائن اخبارات پڑھی جاتی ہیں2022میں واشنگٹن پوسٹ،نیویارک ٹائمز کی اشاعت اورآمدن میں خاطرخواہ اضافہ ہوایہ تاثرسرا سر غلط ہے کہ پرنٹ میڈیا مررہاہے اخبارات کے صفحات میں کمی ضرور آئی ہے مگراخبارات کے ویب پیجز بن چکے ہیں جن کی ویورزشپ لاکھوں کروڑوں میں ہے ،یاد رکھیں کہ نیوز کی ہردورمیں ہی اہمیت رہی ہے، 1896میں ڈیلی میل انگلینڈ سے شروع ہوا جوہمیشہ سنسنی خیزخبریں شائع کرتا اس کی تعداد2.7ملین تک پہنچ چکی ہے جبکہ آن لائن 25ملین سے بھی زیادہ ہے مگراصل بنیاد وہی ہے جواخبارمیں خبرچھپتی ہے، انہوںنے کہاکہ اخبارات خصوصاً خبروں کاریکارڈ ترتیب دیں الگ فوڈرز بنائیں تاکہ ڈھونڈنے میں آسانی ہو ہم تو خبروں کے تراشے رجسٹرڈ میں محفوظ کرتے تھے ،خبروں کی اشاعت میں سورس اہمیت رکھتاہے آج بھی پرنٹ میڈیا کی کریڈبیلٹی برقرارہے ،سوشل میڈیا پرچلنے والی خبریں چند لمحوں میں غائب ہوجاتی ہیں مگرپرنٹ میڈیا تو دائمی ہے اس سے بھی انکارنہیں کہ سوشل میڈیاموجودہ دورمیں کماﺅ پت بن چکاہ جس میں اخراجات کم ہیں اخبارات اورٹی وی کیلئے کثیروسائل کی ضرورت ہوتی ہے اب تو ٹی وی چینلز نے بھی کمائی کیلئے دیگرذرائع اختیار کرلیے ہیں،خالد عظیم کاکہناتھاکہ پوری دلجمعی اوریکسو ہوکرایسے کام کریں کہ لوگ آپ کی قدرکریں فیلڈ میں نام کمائیں،کتابیں تو آپ کی شخصیت کونکھارتے ہوئے معاشرہ کاممتازشخص بنادیتی ہیں اپنی ساکھ کوکبھی بھی متاثرنہ ہونے دیں بغیرتحقیق،لگاﺅ اورذاتی عناد پردی گئی خبر ساری زندگی کیلئے آپ کی شخصیت کوداغدارکردیتی ہے اس سے پرہیزکریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں