ہیڈماسٹر محمد اسلم بھٹی مرحوم. ایک زندہ جاوید شخصیت

11جنوری 2017ء مجھے یاد ہے میں گجرات پریس کلب کے جنرل سیکرٹری اور جیونیوز گجرات کے انچارج جناب راجہ ریاض احمد راسخ سے ملنے کے بعد لالہ موسیٰ کے قریب پٌہنچا ہی تھا کہ مجھے بتایا گیا کہ تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کھاریاں میں اباجی ۔۔۔۔۔۔سیدھا ہسپتال پہنچا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اج بھی 11 جنوری ہے لیکن 2023ء۔۔آج ہم روایات سے ہٹ کر سارے بہن بھائی گھر جمع ہوئےاباجی اور امی کے لئے قرآن خوانی کی ۔۔۔ اجتماعی طورپر قبرستان گئے اباجی سمیت دیگر وفات پا جانے والے اہل خانہ کےدرجات کی بلندی کے لئے دعائیں کیں۔۔ اباجی خود داری، جرات، بہادری، علم و تدبر کی عملی مثال تھے اقبال کی یہ نظم اکثر گنگناتے
خودی کا سر نہاں، لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں، لا الہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، گماں لا الہ الا اللہ
کیا ہے تو نے متاعِ غرور کا سودا
فریبِ سود زیاں، لا الہ الا اللہ
یہ مال و دولت دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم گماں، لا الہ الا الل
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زنّاری
نہ ہے زماں نہ مکاں، لا الہ الا اللہ
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لا الہ الا اللہ
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم ازاں، لا الہ الا اللہ
جب بولتے تھے تو لگتا تھا کہ الفاظ ہی کیا الفاظ کی پوری پورری لغات ان کے سامنے ہاتھ باندھے ایک فلم کی طرح چلنے لگتی ۔۔۔۔۔۔
اباجی کے بارے میں میں نے ان کی زندگی کی ایک جھلک احاب کو دکھائی تھی لیکن کافی دوستوں اور ان کے چاہنے والوں کی ان کی زندگی کے بارے ابھی تک نہیں علم کہ وہ اللہ کے مہمان ہوچکے اس لئے ایک بار پھر احباب کو بتاتے چلوں کہ اباجی
نومبر1942گلیانہ میں پیداہوئے۔۔۔1962 میں میٹرک بدرکالج شاہ عالم مارکیٹ لاہورسے کیا، آنرزان پرشین دارالعلوم السنہ علوم شرقیہ بیرون دہلی گیٹ لاہورسے 1963 میں، اوٹی 1965 میں، ایف اے 1967 میں بی اے 1970 میں بی ایڈ 1971جبکہ ایم اے فارسی میں کیا گورنمنٹ نارمل سکول لالہ موسیٰ سے مصدقہ تدریسی تربیت کے بعداسلامیہ ہائی سکول لالہ موسیٰ مین بحثیت اورئنٹل ٹیچر چھٹی کلاس سے دسویں جماعت تک پڑھایا پھر بزرگوال(ضلع گجرات ) میں اردو ، فارسی اور اسلامیات پڑھاتے رہے یہاں پر اپنی مدد آپ کے تحت مسجد بھی تعمیر کروائی جو اب علاقے کی آباد ترین مسجد ہے17اکتوبر1966 گورنمنٹ ہائی سکول کالاگوجراں (جہلم)سے سرکاری ملازمت کا آغازکیافارسی اور اردومضامین پڑھاتے رہےیہاں سے 1974میں گورنمنٹ ہائی سکول سرائے عالم گیر،1975میں گورنمنٹ میجرعزیزبھٹی شہید ہائی سکول بہورچھ میں تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہےپھر گورنمنٹ ہائی سکول بھوتہ ، 1976 میں گورنمنٹ ہائی سکول سہنہ میں انکل چوہدری خدادادمرحوم(والد عامر عثمان عادل، عاطف چوہدری)اور سید مشتاق حسین شاہ (اللہ دونوں معماران قوم کو جنت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے)کے ساتھ تدریسی فرائض سرانجام دیتے رہے1982میں بطور ایس ایس ٹی پرموشن ہوئی اور پہلی تعنیاتی گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول لالہ موسیٰ ہوئی یہاں گورنمنٹ ہائی سکول کھاریاں جہاں پر چوہدری عبدالرحمان ذوالفقار(والدماسٹر سجاد حیدرسدھ) کے ساتھ انگلش اور اردو کے استاد رہےاس دور میں ملک حنیف اعوان سابق ایم پی اے کے بھتیجے /بھانجے /بھانجیاں اباجی کے پاس پڑھا کرتے تھےگورنمنٹ ہائی سکول دھنگ میں بطور انچارج ہیڈماسٹر تقرری ہوئی جہاں ہیڈماسٹر ہونے کے باوجود انگریزی، اردو، عربی اور اسلامیات پڑھاتے رہے دوسری طرف انتظامی حوالے سے دیکھا جائے تو وہ سکول جہاں پر لوگ بیٹھ کرتاش اور جوا کھیلا کرتے تھے اس کی چار دیواری کروائی، تمام ضروری لوازمات کے ساتھ دفتر بنوایا،سکول مسجد بنوائی، باغیچے فوراے وغیرہ لگوائے مجھے وہ دور یاد رہےاس وقت کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر احمد حیسن بھٹی ( اللہ ان کو جنت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے)وہاں پر آکر داد دیا کرتے تھےپھر تعلیمی چھٹی پر پنجاب یونیورسٹی لاہور چلے گئے جہاں پر ایم ایڈ کیاوہاں بھی کئی داستانیں رقم کیں ان کے کلاس فیلوز میں سراج الحق(موجودہ امیر جماعت اسلامی )سمیت کئی اہم شخصیات شامل ہیں ہمارے بزرگ ہیڈماسٹر ریٹائرڈ غلام یٰسین جکھڑ رحیم یار خاں بھی ایم ایڈ میں اباجی کے کلاس فیلو تھے جو آج بھی پرانی یادیں تازہ کرتے ہوئے کئی بار آبدیدہ ہوجاتے ہیں( اللہ ان کا سایہ ہم پر تادیر رکھے)ایم ایڈ کرنے کے بعد گورنمنٹ تعلیم الاسلام ہائی سکول کھاریاں آگئے جہاں پر انگلش، اردو، اسلامیات، مطالعہ پاکستان پڑھاتے رہے میں خود دو سال یہاں اباجی کا شاگردرہا۔باپ بیٹے کا تعلق اپنی جگہ لیکن پڑھائی اپنی جگہ ۔۔یہاں پر اباجی سے مجھے کام نہ کرنے پر دوبار مارپڑی ایک بار چھڑی سے ہاتھوں پر اور دوسری بار دو تھپڑپڑے۔۔۔ابھی تک یاد ہیں۔۔۔۔ایک بار اجتماعی طور پر کلاس کے ساتھ سزا ملی جو دیوار سے ساتھ اوپر پاوں کرکے 45 درجہ زاویہ بناناپڑا۔۔۔یہاں پر سہیل ظفر(رہنما مسلم لیگ ق چک لشکری)شہزادبھٹی (سابق صدر پی ٹی آئی سپین،زبیر رضا صدر میرا اپنا کھاریاں ، ثاقب محمود اعوان، ابرارشاہ، سلطان شاہ، معراج خالد (اللہ اس کے قبر کو نور سے بھر سے)سمیت کئی لوگ پڑھتے رہے مجھے یاد ہے کہ سعید اور میں آگے جبکہ باجیاں بائیک پر پیچھے بیٹھ کر اباجی کے ساتھ جاتے تھے، سعیدالرحمان شہید بھی شاید چھٹی میں تعلیم الاسلام ہائی سکول چلا گیا تھا۔۔1992-93میں یہاں پر مسجد تعمیر کروائی ،14مرلہ پلاٹ پر مسجدانواار مدینہ کی تعمیر میں استاد محترم غلام حیسن سیالوی(اللہ ان کا سایہ ہم پر تادیر رکھے)اور دیگر بھی شریک کار تھےیہاں سے گورنمنٹ پبلک ہائی سکول ساہنا (منڈی بہاوالدین )بطور ہیڈماسٹر تعنیاتی ہوئی جس میں صرف پندرہ روزہ قیام میں 3کمروں کی تعمیر کا پراجیکٹ شروع کروایا یہاں پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا (وہاں سے آجانے کے بعد وہاں کے لوگوں نے نہ صرف کمروں کی تعمیر مکمل کی بلکہ اس بلاک کانام بھی اسلم بھٹی بلاک رکھا)یہاں سے گورنمنٹ ملت ہائی سکول چنن بطور ہیڈماسٹر آئے جہاں پر تعلیمی سرگرومیوں کے ساتھ ساتھ اپنی مدد آپ کے تحت ایک باغیچہ اور 6 کلاس رومز بنوائے پھرگورنمنٹ ہائی سکول جنڈانوالہ ایٹ مرالہ میں دوسال رہے 400×100کھیل میدان کی لیولنگ کروائی مین گیٹ کو 15 فٹ اونچا اور 15 فٹ چوڑا محراب آہنی بنوایاواچ مین کاخصوصی کمرہ، دس کمروں میں بیس پنکھے لگوائےاسٹاف روم میں تمام سہولیات فراہم کروائیں دو انجیکٹرلگوائے ، 6واش روم بنوائے گاوں سے سکول تک سولنگ کروائی پہلی بار کسی گورنمنٹ سکول کے ہیڈ ماسٹر کے دفتر کے لئے صوفہ سیٹ خریدکردفتر میں رکھوایا، عوامی غیر قانونی مداخلت ،سرکاری ملازمین سے” بیگار”کاسلسلہ ختم کروایا، اساتذہ اورسکول ملازمین کا وقار بحال کروایاپھر گورنمنٹ ہائی سکول سہنہ میں بطور ہیڈماسٹر تعنیاتی کے بعدتعلیمی حوالے سے 16سال بعد سکول کا نتیجہ 100 فیصد کروایا2000فٹ چار دیواری پختہ، 4ہیڈپمپ، 2 انجیکٹردو الیکٹرک کولر،سائنس روم،دوکلاس رومز،8 کمروں پر مشتمل مصعب بن عمیر بلاک تعمیر کروایا، 50 ہزار اینٹیں سکول میں مزید تعمیری کاموں کے لئے منگوائیں، مہمانوں کے لئے 6 گرم بستر، 6 چارہائیاں 40 افراد کے لئے برتن مہیاکروائےاس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر محمد اعظم خالد سابق طالب علم سکول ہذا کے خصوصی تعاون سے دو منزلہ مسجد تعمیر کروائی سہنہ میں دوران تعنیاتی خصوصی طور پر علاقائی فرعونیت و غیر قانونی عوامی مداخلت کا خاتمہ کیا۔۔ان کے ہزاروں شاگرد اس وقت ملک کے اندر اور باہرخدمت سرانجام دے رہے ہیں۔۔۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہم بچپن ہی سے تختیاں لکھنا شروع ہوئے جو کالج دور تک جاری رہیں۔۔پرائمری کلاسزمیں ہی اباجی نے ہمین ا ب کے ساتھ ساتھ اے بی سی بھی یاد کروادی تھی چھوٹی پٹی اور بڑی پٹی دونوں ہم لکھ لیا کرتے تھے۔۔۔ میں ابھی مڈل کلاسز میں تھا تو اباجی شورش کاشمری مرحوم کی کتابیں لایا کرتے تھے جن میں” اس بازار میں” اور” پس دیوار زنداں” کے نام مجھے ابھی تک یاد ہیں۔۔شورش کاشمیری جنہوں نے کبھی بھی باطل کے آگے جھکنا گوارانہ کیا۔۔کوئی سرکاری مراعات لیں نہ پلاٹ نہ بنگلے نہ غیر ملکی ویزے۔۔۔۔ان کی کتابوں کے مطالعے کے بعد میں نے اپنے نام کے ساتھ شورش کاشمیری جبکہ چھوٹے بھائی سعید الرحمان شہید نے یورش کاشمیری کا اضافہ کرلیا۔۔پھراباجی یونیورسٹی گئے تو اسلامی جمعیت طلبہ کا ترجمان ماہنامہ “ہمقدم”لاتے جس کے مطالعے سے مزید شعورحاصل کرکے میں نے اسلامی جمعیت طلبہ جائن کی۔۔اباجی نے ہمیشہ میری ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی۔۔مڈل کلاسز میں تھا کہ ضیاء الحق شہید فاونڈیشن کا گلیانہ کا صدر بنا۔۔۔پھر جمعیت اور میں سلسلہ چل نکلا۔۔۔مجھے یاد پڑتا ہے اباجی مجھے اور سعید کو اسلامی کہانیاں، بچوں کی کہانیاں سنایا کرتے تھے اباجی کے ایک طرف میں اور دوسری طرف سعید لیٹے ہوتے تھے کبھی کبھی ہماری “ٹیٹ “پر لڑائی بھی ہوجاتی تھی۔۔اباجی نے ہمیشہ میری تعمیری سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی۔۔۔اگرچہ وہ سخت مزاج بھی تھے لیکن جب بھی مجھےکسی تنطیمی کام کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑی انہوں نے کبھی مایوس نہ کیا ۔۔۔روزانہ بلا ناغہ کئی پریشان حال لوگ اپنے مسائل کے حل اور داد رسی کے لئے ہمارے گھر آیا کرتے تھے اور اباجی اپنے پاس سے پیپر کاغذ استعمال کرکے بہت عرق ریزی سے درخواستیں لکھ کر دیا کرتے تھے کہ بڑے بڑے افسر دھنگ رہ جاتے کئی کئی بار انہیں ان افسروں کو درخواستوں کا مفہوم سمجھنے کے لئے لغات کا سہارا لینا پڑتا۔۔۔۔۔مجھے یادہے پڑھاتے ہوئے جب جب وہ کسی مضمون کی کلاس لیتے تو ایک ایک لفظ سے کئی کئی کہانیاں سنادیتے ۔۔۔ہر سکول میں ہمیشہ زیروپریڈ لیا کرتے تھےجو عام طور پر ایک گھنٹہ سکول لگنے سے پہلے ہوتااور فری ہوتا تھا ان کے پڑھے آج بھی ان کو یاد کرتے ہیں۔۔الحمدللہ
اباجی نے جب بھی مجھے کسی کام کے لئے بلایا میں کبھی بھی انکارنہ کرسکا۔ نکاح کے بعد زینب صدیق نے جب مزید تعلیم کی خواہش کا اباجی سے اظہار کیا تواباجی نے مجھ سے بات کی ۔۔۔اور پھر زندگی کا مشکل ترین فیصلہ کیا اور اباجی کےحکم پر گورنمنٹ ڈگری کالج برائے خواتین میں زینب کو داخل کروایا اور داخلے کے چھ ماہ بعد ہی اباجی۔۔۔۔اللہ کے پاس چلے گئے۔۔میری بیٹی امامہ اور بیٹے احمد سے اباجی کو بہت پیار تھا وہ بھی اباجی کو” اباجی” ہی کہتے ہیں ۔۔۔اور کہتے ہیں اباجی صرف “ان” کے ہیں۔میں کبھی بیمار ہوجاتاتو وہ پریشان ہو جایا کرتے تھے میرے ماتھے اور میرے ہاتھوں پر بوسہ دیتے جس کی مٹھاس میں آج بھی محسوس کرتا ہوں۔۔میں اگرچہ گناہ گار انسان ہوں لیکن اباجی نے ہر اہم موقع پر مجھے آگے کیا۔۔۔بڑی باجیوں کانکاح مجھ سے پڑھوایا۔۔۔باجی خدیجتہ الکبری کی بیٹی کی وفات پر جنازے کے لئے مجھے آگے کردیا۔۔۔حتٰی کہ امی کے وفات پا جانے کے بعد دوسرے نکاح کے وقت بھی مجھے کال کی۔۔۔۔شاید اسلامی تاریخ میں پہلی بار ایک بیٹے نے اپنے والد کا نکاح پڑھایا ہو۔۔اعر یہ اعزاز بھی اباجی کے طفیل مجھے ملا۔۔مجھے خوشی ہے مجھے فخر ہے کہ میں اپنے اباجی کا چہیتا بیٹا ہوں ان کے بیشتر دوستوں کومیں جانتا ہوں اور ان کی ایسے ہی عزت کرتا ہوں جیسے اباجی ہوں۔۔۔
11 جنوری 2017کی شام کا یہ وقت(شام 8بجے) میری زندگی کا دردناک ترین وقت تھا جس شام میں اپنے صحافتی استاد اور جیو نیو گجرزت کے انچارج راجہ ریاض احمد راسخ سے مل کر کھاریاں آرہا تھا جہاں تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال میں اباجی داخل تھے کھاریاں کینٹ کے پاس پہنچا تو مجھے مری زندگی کی سب سے غمگین خبر ملی۔۔۔۔۔اور جب ہسپتال پہچا تو اباجی اللہ کے پاس جاچکے تھے۔۔اناللہ واناالیہ راجعون
اس وقت میرے نازک کندھوں پر۔۔اباجی کے ہوتے ہوئے جن کندھوں پر اباجی نے کبھی بوجھ نہیں پڑنے دیا ۔۔ان نازک کندھوں پر ایک دم سے جو بوجھ پڑا وہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔۔۔۔آج اباجی کے یوم وفات کے موقع پر اپنے دوست احباب کے ساتھ اباجی کے چاہنے والوں سے بھی گزارش ہے کہ سورۃ فاتحہ، الحمدشریف کی تلاوت اوراگر ہوسکے تو دورکعت نفل پڑھ کر دعاکریں کہ اللہ رب العزت اباجی کو نبی رحمت ﷺ کا جنت الفردوس میں قرب نصیب فرمائیں۔۔۔مجھے ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائیں ۔۔۔۔انہوں نے اپنی زندگی میں مجھے ہمیشہ باطل کے خلاف ڈٹ جانے اور مظلوم کا ساتھ دینے کا سبق سکھایا جس کا عملی اظہار میرے دوست احباب کبھی کبھی دیکھتے ہیں۔۔۔الحمدللہ مظلوم اور مشکلات کے شکار لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کا جو جذبہ اباجی سے وراثت میں مجھے ملا ہےوہ میرے ساتھ ساتھ میری اہلیہ زینب صدیق۔۔میری بیٹیوں نایاب اور امامہ اور بیٹے محمد احمد میں بھی موجود ہے ہم جب بھی کسی کو پریشان حال دیکھتے ہیں تو اپنی پریشانی بھول کر اس کے لئے آسانیاں پیدا کرنے میں لگ جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں آج کے روز اباجی کے ایصال ثواب کے لئے پاسبان ویلفیئر فاونڈیشن کو منظم ہوچکی ۔۔دکھی انسانیت میں آسانیاں بانٹنے کا منظم نظام بن چکا ہزاروں لوگ مستفید ہورہے میرے دوست احباب اور اباجی کے شاہنے والے اس نیکی کے پراجیکٹ میں بھی ہمارے شریک سفر ہیں اللہ ہمارے لئے آسانیاں پیدافرمائے اور دکھی انسانیت کی زیادہ سے زیادہ خدمات ہمارے ذریعے کراکر دین و دنیا کی ساری بھلائیں نصیب فرمائے آمین
محمد عزیزالرحمان مجاہد

اپنا تبصرہ بھیجیں