ایک بار پھر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بخار خامہ اثر قاضی عبدالقدیر خاموش

جیسے جیسے سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کرنے کےقریب جارہا ہے ، پاکستان میں بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث میں شدت پیدا کی جا رہی ہے، میڈیا ہائوسز اور راتب خور ویب سائٹس اسرائل کو تسلیم کرنے کے فوائد گنوانے میں مصروف ہیں جبکہ مین سٹریم دینی جماعتیں ’’ہر چند کہیں کہ ہے مگر نہیں ہے‘‘ کی عملی تفسیر بنی دکھائی دیتی ہیں ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس تمام کے پس پردہ وہی قوتیں ہیں جن کے دام ہم رنگ زمین کا شکار ہو کر سعودی عرب خود کشی کےاس راستے پر چل نکلا ہےاور زہر کا پیالہ پینے کو تیار ہے ۔ ان قوتوں کا اگلا ہدف پاکستان ہے ، وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اس وقت تک سعودی عرب کا تسلیم کرلینا بھی بے معنی ہے ۔
اب جبکہ عالمی استعمار کی پشت پناہی سے ملک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے لابنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ نگران وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کو تسلیم کا مشروط ارادہ ظاہر کردیا گیا ہے تو لازم ہے کہ ہم اس معاملہ میں تصویر کا اصل رخ پیش کریں ، اور نظریات کی جنگ میں حق کا ساتھ دیں، ورنہ ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ، اس کے پیش نظر ایسے مباحث کا چھیڑنا بذات خود انتشار کو دعوت دینے کے مترادف ہے ۔ لیکن جب حکومت خود ایک شر انگیز مہم شروع کرنے جا رہی ہے تو پھر خاموش رہنا اور حق بیان نہ کرنا ایک جرم سے کم نہ ہوگا ۔
اس سے پہلے کہ ثابت ہو جرم خاموشی ہم اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہتے ہیں
حقیقت یہ ہے کہ کچھ مغرب زدہ سکالر اپنے اثرورسوخ کو استعمال کر تے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کروانے کی مہم چلا رہے ہیں۔ اس کے باعث پاکستان کی واضح اور دو ٹوک خارجہ پالیسی تحفظات اور شکوک و شبہات کا شکار ہو گئی ہے۔ جو لوگ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کررہے ہیں ان کی طرف سے تین دلائل بڑے شدومد کے ساتھ دیے جا رہے ہیں:
1۔ اسرائیل ایک حقیقت ہے اس لیے اب اسے تسلیم کر لینا چاہیے۔
2۔اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے لیے معاشی طور پر خوشحالی کا باعث ہو گا ۔
3۔جب عرب خصوصا سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم کر رہا ہے تو پاکستان کیوں نہیں ؟
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض اس بنیاد پر کسی ملک کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ اب وہ جغرافیائی طور پر موجود ہے۔ کیا اس کا کوئی تعلق قانون ‘ضابطۂ اخلاق اور بین الاقوامی تعلقات سے نہیں؟ کیا آپ ایک لٹیرے اور اپنے گھر پر قابض ڈاکو کو چند برسوں بعد صرف اس لیے گھر کا مالک مان لیں گے کہ اب اس قبضے کو کئی سال بیت گئے ہیں؟اگر ہر حقیقت کو تسلیم کرنا لازم ہے تو اسرائیل سے پہلے فسلطین ایک حقیقت تھی ، حقیقت ہے ، اسے تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ؟ افغانستان میں طالبان حکومت حقیقت ہے ، دنیا تسلیم کیوں نہیں کرتی ؟ القاعدہ کا وجود ایک حقیقت ہے دنیا تعلقات کیوں قائم نہیں کرتی ؟ داعش کا وجود حقیقت ہے دنیا تسلیم کیوں نہیں کرتی ، تعلقات کیوں قائم نہیں کرتی ؟ جبکہ اسرائیل تو ‘ جغرافیائی‘ تاریخی‘ آبادی اور اخلاقی اعتبار سے حقیقت ہے ہی نہیں ہر اعتبار سے ایک جھوٹ اور دھوکہ ہے، یہ اسی طرح کی
حقیقت ہے جیسے القاعدہ ، داعش، یا دنیا کی دیگر دہشت گرد تنظیمیں ، قانون فطرت یہ ہے کہ ایسی حقیقت کو مٹانے کے لئے تسلیم یا جاتا ہے نا کہ تعلقات بنانے کے لئے ۔دوسری دلیل کہ پاکستانی معیشت بہتر ہوگی یہ بھی ایک دھوکے کےسوا کچھ نہیں اسرائیل کو تسلیم کرنے سے معیشت سدھرتی تو مصر آج معاشی قوت ہوتا،اس نے دہائیوں سے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے، مگر ان کی اقتصادی حالت بہتر ہونے کے بجائے مزید ابتری کا شکار ہے۔
رہا معاملہ یہ کہ عربوں نے تسلیم کرلیا ہے ، تو ہمیں بھی کر لینا چاہئے ، اس سے زیادہ کمزور اور لایعنی دلیل کوئی ہے ہی نہیں ۔ اس سوال کامسکت جواب آج سے کئی برس قبل شیخ الاقصیٰ شیخ اسعد بیوض تمیمی دے چکے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ہماری دعوت پر جناب اسعد بیوض تمیمی دورہ پاکستان پر تشریف لائے ، وزیر اعظم پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی ان کی ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے محترمہ سے کہا کہ ’’پاکستان کو چاہئے کہ وہ کبھی اسرائیل کو تسلیم نہ کرے ؟‘‘‘ بے نظیر بھٹو جو اس دور میں عرب ممالک کی بے تابیوں سے آگاہ تھیں ، انہوں نےسوال کیا کہ اگر عرب ممالک تسلیم کرلیں تو ؟ اس پر شیخ تمیمی نے تاریخی جملہ کہا ’’اگر عرب نماز چھوڑ دیں ، اسلام، سے ہٹ جائیں تو کیا آپ بھی چھوڑ دیںگے؟ فرمایا یہ عربوں کا نہیں دین اسلام کا مسئلہ ہے ۔ قبلہ اول یہودیوں کی تحویل میں دینے اور اسے تسلیم کرنے کا حق عرب ممالک سمیت کسی کو نہیں ۔‘‘ محترمہ نے فورا کہا کہ میں سمجھ گئی اور پھر پوری زندگی محترمہ نے اپنا عدہ نبھایا ۔
اب سوال یہ ہے کہ اسرائیلی لابی کے بقول پاکستان کی کوئی اہمیت نہیں تو پھر امریکہ اور اسرائیل اتنے بے تاب کیوں ہیں ؟پاکستان سے تسلیم کروانا ان کی ترجیح اول کیوں ہے ؟ کبھی لالچ، کبھی دھمکی ،کبھی سازش آخر کس لئے ؟ معاملہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی ایٹمی قوت ، جغڑافیائی محل وقوع اور اپنے پالیسیوں کے سبب اب بھی ایک اہم اسلامی ملک ہے۔نہ صرف پاکستان کی او آئی سی میں مضبوط لابی ہے، بلکہ پاکستان سے تعلقات کاسب سے زیادہ فائدہ یہ ہو گا کہ عالم اسلام کی اسرائیل سے نفرت کم ہو نے کا امکان ہے۔
اب آتے ہیں اس سوال پر کہ ہمیں اسرائیل کو تسلیم کیوں نہیں کرنا چاہئے ؟
1۔۔۔سب سے پہلی بات کہ اسرائیل سے تنازع بیت المقدس کا ہے ، عربوں کو بے گھر کرنے کا نہیں ، یہ ایک شرعی مسئلہ ہے ، ہم اسے تسلیم کریں گے تو اپنی بنیاد نظریہ اسلام اور اللہ کے احکامات کی خلارف ورزی کے مرتکب ہوں گے ۔
2۔۔۔حکمران اور حکومتیں اپنی جگہ لیکن عالم اسلام کی غالب اکثریت اسرائیل سے نفرت کرتی ہے ،جبکہ پاکستان کو محبت سے نوازا جاتا ہے ،اسرائیل کو تسلیم کرنے سے ہم اس سے کی جانے والی نفرت کے حصے دار ہوں گے ، اور تسلیم نہ کرکے عالم اسلام کی محبت کے حق دار ۔
3۔۔ اسرائیل کو تسلیم کر نا ہماری قومی پالیسی کا قتل ہے ، اس سے ہم ہمیشہ کے لئے کشمیر پر اصولی موقف کو خیر باد کہہ دیں گے ، اگر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ درست مان لیں تو کشمیر پر بات کرنے کا کیا جواز۔
4۔۔اسرائیل کے جارحانہ عزائم جو پاکستان کی سلامتی کے لیے روز اوّل ہی سے خطرہ ہیں ، ان سے بچائو ناممکن ہوجائے گا ۔ پاکستان سے دشمنی اسرائیل کی بنیادی پالیسی کا حصہ ہے ، بانی وزیر اعظم بن گوریان نے واضح اعلان کیا تھا کہ ’’ دنیا میں اسرائیل کا کوئی حقیقی دشمن اگر ہے تو وہ پاکستان ہے ، کیونکہ وہ اسلام کے نظریہ پر قائم کیا گیا ہے ، یہ ملک ہمارے لیے عربوں سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اسے مٹانا ہمارا قومی و مذہبی فریضہ ہے ۔ اب عالمی صہیونی تحریک کا ہدفِ اول پاکستان ہونا چاہیے ۔ ( جیوش کرانیکل،19؍اگست 1967ء)
5۔۔ پاکستان بھارت کے جارحانہ عزائم کا سامنا اور ملکی سلامتی و تحفظ کو کس طرح یقینی بناسکے گا۔، کیونکہ اسرائیل ہمیشہ بھارت کا جنگی پارٹنر ہے ۔2003 میں اسرائیلی وزیر اعظم شمعون پیریز دو ٹوک الفاظ میں اعلان کرچکا ہے کہ’’ اگرپاکستان اسرائیل کو تسلیم بھی کرلے تو پاک بھارت جنگ کی صورت بھارت جو بھی فیصلہ کرے گا اسرائیل بھارت کا ساتھ دے گا۔ (دی نیشن9 جنوری 2003)۔
6۔۔۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو بھارت اور اسرائیل سے درپیش خطرات کا مقابلہ ممکن نہ ہو سکے گا ۔
یہ محض چند نکات نہیں بلکہ پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے وہ عنوانات ہیں جن کو معاشی خوش حالی کے فریب میں بالکل نظرانداز کر دینا نہ صرف نقصان دہ بلکہ تباہی کا باعث ہو گا۔کوئی بھی باشعور اورزندہ قوم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتی کہ مالی فوائد کی موہوم امید پر اپنی آزادی،خودمختاری اور قومی موقف سے دستبردار ہونے کو تیار ہوجائے ۔حکمرانوں سے پہیلے کبھی کوئی توقع تھی نہ اب ہے،پاکستانی قوم کو اس سازش کو ناکام بنانے کے لیے از سر نو اپنے کردار کا جائزہ لینا ہو گا۔ اس تشویش ناک صورت حال میں اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سیاسی غلطی کرتا ہے تو ثقافتی اور نظریاتی محاذ پر نہ صرف ہماری شکست ہوگی بلکہ غیرجذباتی ہو کر کسی بھی رخ سے غور کیا جائے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان اور عالم اسلام کے لیے تباہ کن اور ناقابل قبول ہے‘ اس سے پاکستان خطرات کی ایک ایسی دلدل میں پھنس جائے گا جس سے نکلنا ممکن نہ ہو گا۔لازم ہے کہ پاکستان کے ارباب علم ودانش یکسو رہیں ، اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کی ہر کوشش کی ڈٹ کر مخالفت کریں ۔
’’رَبَّنَآ أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِيْنَ‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں