علامہ عبدالستارعاصم قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں: علامہ عبدالستارعاصم قلم فاؤنڈیشن کے روح رواں

علامہ عبدالستارعاصم اشاعت کی دنیاکامعروف اورمعتبرنام ہیں۔اردوپڑھنے والے قارئین میں سے شاید ہی کوئی ایسا شخص ہوگا، جسے کتابوں سے تودلچسپی ہولیکن علامہ عبدالستارعاصم اور ان کے معروف ومقبول ادارے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے نام سے واقف نہ ہو۔ اور اگر ایسا کوئی شخص ہے تو پھراس کا یہ دعویٰ باطل ہوسکتا ہے کہ وہ اردو ادب اور کتابوں سے دلچسپی رکھتا ہے ۔ لاہورعلم وادب کا مرکزومحورہے۔ یہاں بڑے بڑے صاحب علم اور اہل قلم موجودہیں۔جوبلاشبہ لاہورکی معروف اور اعلمی ادبی شخصیات میں شامل ہوتے ہیں۔ انہی میں ایک بڑا اورمعتبرنام تقریباً150سے زائد کتب کا مصنف، مورخ، کالم نگاراورادیب علامہ عبدالستار عاصم کاہے۔ جو پبلشنگ کی دنیا کے پہلے چند بڑے اداروں میں سے ایک یعنی قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کے بانی وسربراہ اور روحِ رواں ہیں۔ جن کے کام کرنے کا انداز سب سے جدااورنرالاہے۔ بڑے بڑے اشاعتی ادارے جہاں گھٹنے ٹیک دیتے ہیں اور اپنے بے شمارمالی وسائل دیگراسباب اور افرادی قوت کے باوجودکتابوں کے پڑھنے فروخت ہونے اور چھپنے کے حوالے سے مایوسی کااظہارکرتے نظرآتے ہیں، وہاں علامہ عاصم خاموشی سے ایک طرف کھڑے مسکراتے نظرآتے ہیں۔ لوگ حیران پریشان ہوتے ہیں کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور مہینوں بعدکوئی نئی کتاب چھپنے کے لیے آئی ہے وہیں علامہ عبدالستارعاصم سربازاریہ چمتکارکرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہرہفتے بلکہ بعض اوقات دو سے تین دن کے بعدایک نئی کتاب مارکیٹ میں متعارف کرواتے ہیں اور یہ ساری کرشماتی اور حیران کن کارکردگی چند افراد پر مشتمل چھوٹی سی ورکنگ ٹیم کے ساتھ ہرروزدیکھنے میں آتی ہےکہ قومی اخبارات کے کسی نہ کسی صفحے پر قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل کی کسی نئی کتاب کی اشاعت کی خبر اس پر تبصرہ آپ کو ضرور نظر آئے گا۔ لوگ اور خصوصاً پبلشنگ کی دنیا کے نام نہادچیمپئن اس “جادوئی “اور”کرشماتی ” تکنیک کو سمجھنے اور جاننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں کہ کس طرح ایک تن تنہاشخص ہرروزایک کتاب شائع کرکے کامیابی وکامرانی کی شاہراہ پر گامزن ہے۔ تویہ کوئی ایسی راز کی بات نہیں کہ اس کے پیچھے سادہ سافلسفہ یہ ہے کہ علامہ عاصم “سودوزیاں” سے چارقدم آگے چلتے ہوئے کتاب کوعلم کے فروغ کیلئے شائع کرتے ہیں ۔ صرف کاروبار سمجھ کر کتابیں چھاپنے والے توبےشمارادارے ہیں۔ لیکن فراغِ علم وادب کامشن لے کرچلنے والے ادارے کانام “قلم فاؤنڈیشن” ہے۔ جس کی ترقی اور کامیابی کے پیچھے کتاب کی محبت اور کتابوں سے مشق کی طویل داستان اورجستجو کے ہزارقصے پوشیدہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک انتہائی مختصر عرصے میں قلم فاؤنڈیشن نے تہلکہ خیز کامیابی حاصل کی۔ اور اب تک ہزاروں ٹائٹل شائع کرکے لوگوں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ اس ادارے کی ایک بڑی اور نمایاں خوبی یہ ہے کہ ہرنئی کتاب کا موضوع، منفرداوراہم ہوتا ہے۔ حالات حاضرہ کے مطابق بعض ایسی کُتب اس پلیٹ فارم سے شائع ہوئیں کہ لوگ چونک اٹھے کتاب کا مسودہ لیتے وقت “علامہ عاصم”ایک پبلشرنہیں بلکہ نقادکاروپ اختیارکرلیتے ہیں۔ وہ انتہائی چھان پھٹک کرکے کتاب چھاپتے ہیں۔ بعض پبلشردولت کی ہوس میں ایسی کتابیں بھی شائع کررہے ہیں۔ جومعاشرے میں منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔ وطن عزیز کے خلاف دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے لکھنے والوں کی کمی نہیں جوچند ٹکوں کی خاطرتاریخ کومسخ کرکے پیش کرتے اور دشمن کوخوش کرتے ہیں۔ الحمداللہ قلم فاؤنڈیشن ایسے مسودے کوہاتھ لگانا بھی گناہ سمھتاہے۔ وہ کتاب ہی کیاجسے شائع کرنے کے بعد آپ سرعام فروخت نہ کرسکیں۔ ایسی کتابیں جوفرقہ وارانہ ہم آہنگی کوٹھیس پہنچائیں، آپس میں منافرت پیداکریں، ملک کی سلامتی اور قوم کی یکتہجی کے خلاف ہوں قلم فاؤنڈیشن مصنف کوایسے مسودے کو نذرآتش کرنے کے مشورے دیتا ہے۔ فحش موادپر مبنی وہ کتاب جسے آپ چھپا کررکھنا پڑے اس سے بہتر ہے کہ بندہ کسی چوراہے میں ٹھیلالگالےایسی کتاب جسے آپ اپنی الماری کے کسی خفیہ خانے میں چھپاکررکھیں وہ کتاب نہیں بلکہ ایسا زہرہے جسے آپ معاشرے کی رگوں میں اتارتے ہیں قلم فاؤنڈیشن نے ہمیشہ صاف ستھرامعیاری ادب ، اسلا ی تاریخی ، سیاسی ، صحافتی اور دیتی کتب شائع کرنے کو ترجیح دی ہے۔ حرفِ قلم کی پاسبانی کارِ دشوارہے۔ پرورشِ لوح و قلم خونِ دل سے کرناپڑتی ہے بعض اوقات چراغوں میں تیل نہیں خون جلاناپڑتا ہے ۔ تب کہیں منزلوں کے نشاں دکھائی یاسمجھائی دیتے ہیں، جہالت کے اندھیروں اور گمناموادیوں میں علم و ادب کے چراغ روشن کرنااوردم توڑتے کتاب کلچرکوکزندہ کرناقابلِ تحسن اور لائق انعام وکرام کارنامہ ہے۔ عصرحاضر میں پاکستان میں کتاب کلچر کو نئی زندگی اور نئی روح بخشنے والے اشاعتی اداروں کا جب بھی ذکرکیاجائے گا۔ قلم فاؤنڈیشن کو ہاول دستے میں اولین حیثیت سے یادکیاجائے گا۔ اگر کوئی شخص ہمت کرکے پاکستان کے بڑے اشاعتی اداروں کی تاریخ رقم کرنے بیٹھے گاتواس کے لیے قلم فاؤنڈیشن کونظراندازکرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگا۔ اس دور میں جب اس صدی کو “دانشوروں” نے کتابوں کی آخری صدی قراردے دیا تھا، اور اس خدشے کو سوشل میڈیاں اور انٹرنیٹ کی لامتناہی “رنگین و سنگین” دنیا کی چکاچوند نے ایسی تقویت بخشی تھی یہ یارلوگ یقین کربیٹھے تھے کہ کتاب کلچر”آئی سی یو” میں چلاگیا ہے اس کا مرض لاعلاج ہے۔ اور کتاب کلچر کی “آثار” اب لوٹنے والے ہیں۔ لاہور میں چند دہائیاں پہلے کتابوں کے جنون میں مبتلاایک نوجوان قلم کے چپولیے اشاعت کی ندی میں اپنی ناؤ اتارتا ہے اور پھردیکھتے ہی دیکھتے علم وادب کے دریابہادیتا ہے۔ کتاب کو نئی زندگی ملتی ہے۔ لوگ “انگشت بدنداں” پوچھتے ہیں کہ “قلم فاؤنڈیشن” کے دھڑادھڑ کتابیں شائع کرنے کا فارمولاکیاہے؟ توبتائے دیتے ہیں کہ دنیا میں دوہی لوگ محیرالعقول کارنامے سرانجا م دیتے ہیں، ایک “عاشق” اور دوسرے “جنونی” عشق آتش نمرود میں کود پڑتا ہے کچے گھڑے پہ سوارہوکرچڑھتے دریا میں تیرکرڈوب جاتا ہے اور امرہوجاتاہے۔ یا پھرجنونی لوگ (مجنون) ایسے کارنامے سرانجام دے جاتے ہیں کہ عقل محوِ تماشہِ لب بام کھڑی اپنے بال نوچتی رہ جاتی ہے۔ علامہ عبدالستارعاصم کے کھاتے میں “قلم فاؤنڈیشن” اور تصنیف وتالیف کے حوالے سے ایسے ایسے حیران کن “شاہکار” موجود ہیں کہ جن پر فخر بھی کیا جاسکتاہے۔ اور بجاطورپراُن کو سراہنے اور داددینے کاحقدار بھی قرار دیا جاناچاہیے بعض اوقات توایسا لگتا ہے کہ منزل خود اس مسافرکاہاتھ پکڑکرگلے لگالیتی ہے اور سفرخودراستوں کی تلاش میں اس طرح سرگرداں ہوتاہے کہ وہ سنگ میں علامہ عبدالستارعاصم کوقریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ متحرک ترین شخصیت کی حامل “جنون” کی حالت میں کام کرنے والے ایسے شخص ہیں جنکااوڑھنا بچھونا، چلناپھرنا، کھاناپینا، شب و روز، سردگرم سبھی کچھ کتابیں ہیں۔ وہ ہمہ وقت کتابوں کے جنون میں مبتلارہتے ہیں۔ کتاب کے لیے کام کرتے ہوئے وہ ہفتے کے ساتوں دن چوبیس ساعت مصروف اور دستیاب ہیں جس طرح بعض فارمیسی اور ہسپتالوں پر 7/24 لکھاہوتاہے اسی طرح کتاب کے بارے بات کرنی ہوتو علامہ عاصم 7/24 دستیاب ہوتے ہیں۔ اور یہی ان کی کامیابی کاراز ہے۔ گویاکتابوں کے حوالے سے ان کے کام کرنے کے اوقات ان کے ماتھے پر7/24کے ہندسے کی صورت میں تحریر ہیں۔ علامہ صاحب نے کچھ کام ایسے کیے ہیں کہ ان کے ذکر کے بغیر یہ تحریر مکمل نہ ہوگی بحیثیت قلم کاران کی تصنیفات کی تعدادسینکڑوں میں ہے لیکن میں یہاں صرف چند کتابوں کا ذکرکروں گا۔ جوکہ اردوادب میں شاہکارکادرجہ دکھتی ہیں ؛جہانِ قائد(انسائیکلوپیڈیا) علامہ صاحب کی ایسی عظیم تصنیف ہے کہ جس میں بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کی زندگی کے ہرہرپہلو کوبہ طریق احسن قلمبندکیا ہے کہ یہ پانچ جلدوں اور 2404 صفحات پرمشتمل ایک مکمل جامع اور تاریخ دستاویزی انسائیکلوپیڈیاہے جس میں قائداعظم کے بارے میں ہرطرح کی معلومات بہ حوالہ جمع کردی گئی ہیں جوکہ تاریخِ پاکستان اور تحریکِ پاکستان کے طالب علموں کیلئے ایک مستند دستاویز ہے۔ علامہ صاحب اگر اور کوئی کتاب نہ بھی لکھتے تو کتابوں کی دنیا میں زندہ رہنے کیلئے صرف “انسائیکلوپیڈیا جہانِ قائد” ہی کافی تھا۔
ان کی دوسری تصنیف جس کاتذکرہ باوضوکرناچاہیے وہ ہمارے آقاکریم حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکتوبات ہیں جن کو یکجاکرکے “انسائیکلوپیڈیا مکتوبات رحمۃ اللعالمین کی شکل میں شائع کیاگیا ہے۔ یہ ایک بڑاخوبصورت منفرداوراہم کام ہے جسے سرانجام دے کرمصنف نے اپنی دنیا اور آخرت سنوارلی ہیں۔ آقاکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لکھوائے گئے ان خطوط کی رنگین تصاویزآنکھوں کی تراوٹ اور کتاب کی سجاوٹ کاباعث ہیں۔ یہ وہ خطوط ہیں جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبلیغ واشاعت دین کے لیے اس وقت کے مختلف ممالک کے سربراہان اور اکابرین کوتحریر کیے۔ اپنے موضوع کے اعتبار سے یہ بہت اہم کتاب ہے۔ شاید اسی کی برکت سے قلم فاؤنڈیشن نے ترقی کی منازل اس تیزی سے طے کیں کہ پبلشنگ کے بڑے بڑے شاہسوار قلم فاؤنڈیشن کی گردکو بھی نہیں پہنچ پاتے۔علامہ عبدالستارعاصم کی دیگرمعروف و مشہورتصنیفات میں، پاکیزہ زندگی، فضائل رمضان،(نبی پاک کے معمولاتِ رمضان) ذرہ سے آفتاب وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ بحیثیت بانی وچیئرمین قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل علامہ صاحب کا زیادہ وقت دیگر مصنفین کی کتابوں کی اشاعت کی نذرہوجاتاہے۔ اس کے باوجود وہ روزنامہ خبریں، ہفت روزہ مارگلہ نیوز، پندرہ روزہ حقیقت اور دیگر بے شماراخبارات ورسائل میں باقاعدگی سے کالم لکھتے ہیں، سنڈے میگزین روزنامہ خبرین میں ان کے چشم کشافیچرز اور مضامین شائع ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ تصنیف و تالیف کا کام بھی جاری رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت تھوڑے عرصے میں وہ سیکڑوں کتب کے مصنف ہیں حیرت ہوتی ہے کہ وہ اتنا کام کیسے کرلیتے ہیں؟ انہوں نے اپنی زندگی صحیح معنوں میں حضرت قائداعظم کے اس فرمان کے مطابق گزاری ہے کہ کام کام اور بس کام۔بحیثیت پبلشرعلامہ عبدالستارعاصم ایک کامیاب اور منجھے ہوئے اشاعت کار ہیں۔ کون سی کتاب چھاپنی ہے۔ کیسے چھاپنی ہے۔ طباعت، کتابت، جلدبندی، کاغذکیساہوناچاہیے۔ وہ ان سب امورپربہت توجہ اور عرق ایزی سے کام کرتے ہیں۔ مصنف سے معاملات طے پاجانے کے بعد کتاب کے مارکیٹ میں آجانے تک وہ ایک پل آرام سے نہیں بیٹھتے، ہرلمحہ انہیں معیاراورقلم فاؤنڈیشن کے وقار کی فکررہتی ہے۔ مسودے کاانتخاب کرتے وقت وہ اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ کتاب کے اندرونی صفحات پرقطعاً کوئی ایسا موادنہ ہو جس سے معاشرے میں بے چینی انتشار اور منافرت پھیلے۔ یاکوئی ایسی بات جووطن عزیز کی نظریاتی اسا س کو نقصان پہنچائے۔ فرقہ وارانہ تحریر۔ تعصب زدہ مصنفین ، فحش ادب الغرض ہرطرح کا منفی “سودا” قلم فاؤنڈیشن کی دکان پر نہیں بکتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک قلم فاؤنڈیشن نے جتنی کتابیں شائع کی ہیں انہیں ہم بڑے فخر سے دنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں۔ ایسی کوئی کتاب نہیں کہ جسے قاری کو کمرہ بند کرکے پڑھناپڑے۔ قلم فاؤنڈیشن نے پاکستان کے بہت بڑے اور ناورقلم کاروں کی تخلیقات شائع کی ہیں۔ تحریر کی طوالت کے باعث ان سب کا ذکریہاں ممکن نہیں لیکن چند کتابوں کا ذکر میں ضرورکرناچاہوں گا۔ جس میں سرفہرست بانیِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح علیہ رحمہ کی زندگی پر مشتمل ضیا شاہد مرحوم کی شہرہ آفاق کتاب ” سچا اور کھرالیڈر” ہے۔ قائداعظم کے بعد پاکستان کے سب سے زیادہ قابل احترام اور عوام کے دلوں کی دھڑکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خودنوشت سوانح ” داستانِ عزم” شائع کرنے کااعزاز بھی قلم فاؤنڈیشن کے حصے میں آیا۔ سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتاب شائع کرنا ہر اشاعتی ادارے کی خواہش اور حسرت ہوتی ہے قلم فاؤنڈیشن کویہ اعزاز اور سعادت یوں نصیب ہوئی کہ بلبل پاکستان محترمہ بشریٰ رحمٰن کی زندگی کی آخری کتاب” سیرت محبوب رب اللعالمین” اس ادارے نے شائع کی۔ جو اپنی نوعیت اورمنفرداندازِ اسلوب کی ایک خوبصورت کتاب ہے۔ اور سیرت نگاری میں دلکش اضافہ ہے۔ اسی طرح دیگر کتب میں تاریخ مخزن پاکستان تین جلدوں پر مشتمل بہت تاریخی دستاویز ہے۔ جن اہم مصنفین کی کتب قلم فاؤنڈیشن نے شائع کی ہیں ان میں سے چند کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں۔ ڈاکٹر صفدر محمود صاحب، ضیاشاہد، ڈاکٹر اے آرخالد، مہرمحمدبخش نول، جناب الطاف حسن قریشی، جبار مرزا، ڈاکٹر ندیم شفیق ملک، ڈاکٹر انعام الحق جاوید، جسٹس (ر) میاں نذیراختر، جسٹس سید افضل حیدر ڈاکٹر منیر احمد سلیم۔ پروفیسر نذیر احمد تشنہ ، نسیم سحر، سعید آسی، ڈاکٹر زاہد،منیرعامر، راجہ حقداد سیاکھوی، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر طاہر مسعود، جناب سید سلمان گیلانی، جمیل اطہر قاضی، ڈاکٹر فاروق عادل اور جناب ایس ایم ظفر سے بڑے بڑے قلم کاروں کی کتب قلم فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے شائع ہوئیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں